سوال (5533)
حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، عَنْ كَامِلٍ أَبِي الْعَلَاءِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عن سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي وَاجْبُرْنِي وَاهْدِنِي وَارْزُقْنِي.
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دونوں سجدوں کے درمیان اللهم اغفر لي وارحمني واجبرني واهدني وارزقني ”اے اللہ! مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما، میرے نقصان کی تلافی فرما، مجھے ہدایت دے اور مجھے رزق عطا فرما“ کہتے تھے۔ کیا اس حدیث کی سند مکمل طور پر صحیح ھے؟
جواب
یہ روایت حبیب بن أبی ثابت کے عنعنہ کے سبب ضعیف ہے۔
البتہ یہ دعائیہ کلمات واجبرنی کے بغیر صحیح مسلم میں آے ہیں مگر ان کا تعلق دو سجدوں کے درمیان کی دعا کے ساتھ نہیں ہے۔
صحیح مسلم کے الفاظ ہیں:
ﻛﺎﻥ اﻟﺮﺟﻞ ﺇﺫا ﺃﺳﻠﻢ، ﻋﻠﻤﻪ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ اﻟﺼﻼﺓ، ﺛﻢ ﺃﻣﺮﻩ ﺃﻥ ﻳﺪﻋﻮ ﺑﻬﺆﻻء اﻟﻜﻠﻤﺎﺕ: اﻟﻠﻬﻢ اﻏﻔﺮ ﻟﻲ، ﻭاﺭﺣﻤﻨﻲ، ﻭاﻫﺪﻧﻲ، ﻭﻋﺎﻓﻨﻲ ﻭاﺭﺯﻗﻨﻲ، صحیح مسلم:(2697)
فائدہ:امام مکحول رحمة الله عليه سے یہ کلمات دو سجدوں کے درمیان پڑھنا ثابت ہیں۔
ﻋﻦ ﺑﺮﺩ، ﻋﻦ ﻣﻜﺤﻮﻝ، ﺃﻧﻪ ﻛﺎﻥ ﻳﻘﻮﻝ ﺑﻴﻦ اﻟﺴﺠﺪﺗﻴﻦ: اﻟﻠﻬﻢ اﻏﻔﺮ ﻟﻲ ﻭاﺭﺣﻤﻨﻲ، ﻭاﺟﺒﺮﻧﻲ، ﻭاﺭﺯﻗﻨﻲ
مصنف ابن أبي شيبة:(9079) صحیح
مگر ہمیں اتباع سنت کے تقاضا کے مطابق مسنون دعا پڑھنی چاہیے ہے جو کئ کتب احادیث میں موجود ہے۔
رب اغفرلي، رب اغفرلي کے الفاظ سے یہ دعا دو سجدوں کے درمیان جتنی بار چاہیں پڑھیں۔
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
سائل: شیخ محترم ایک عام بندے نے اسلام 360 سے یہ حدیث دیکھی اور وھاں یہ صحیح درج ہے
اب عام شخص یہ کیسے سمجھے گا کہ یہ حدیث صحیح ھے یا ضعیف؟
جواب: اہل علم وفضل سے تحقیق کروا کر
عام بندہ بھی تحقیق کرے گا جیسے وہ دنیاوی معاملات میں تحقیق کرتا ہے۔
بازار، بازار گھومتا ہے۔
اچھے رشتے کے لئے تحقیق،
اچھے کھانے کے لئے تحقیق
تو روایت حدیث کی صحت وضعف جاننے کے لئے تحقیق کیوں نہیں؟
اچھے ملبوسات کے لئے تحقیق
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
سائل: عام شخص کو کیسے پتا لگے کہ “صحیح” سٹیٹس والی یہ حدیث ضعیف ہے؟
بندہ سوال کرے گا کہ اگر فلاں حدیث ضعیف ھے تو پھر اس کے ساتھ صحیح کیوں لکھا ہے ؟ اور یہ بات ایک عام شخص کو وسوسہ اور کنفیوژن میں ڈالے گی۔
جواب: جیسے وہ کوشش کر کے مارکیٹ کی ایک نمبر اور دو ممبر کا فرق معلوم کرتا ہے یا کر سکتا ہے۔ اسے چاہیے کہ وہ سٹیٹس والے شخص کا علمی مقام دیکھے اگر معلوم ہے کہ یہ صاحب محقق وناقد ہیں تو إن شاءالله الرحمن روایت ثابت ہو گی، اگر یہ معلوم نہیں کہ سٹیٹس لگانے والے کا علمی مقام کیا ہے تو محققین سے رابطہ کر کے تحقیق کروا لیں۔
روایت حدیث پر جب کوئی محقق حکم لگاتا ہے تو وہ اپنے مطالعہ وتحقیق کے مطابق حکم لگاتا ہے جو اکثر واغلب درست ہوتا ہے چاہے وہ صحت کے اعتبار سے ہو یا ضعف وغیر ثابت کے اعتبار سے ہو۔
ہاں کبھی کسی روایت پر حکم لگاتے ہوئے محقق سے خطا ہو جاتی ہے اور اس کی بعض وجوہات ہوتی ہیں۔جیسے
(1) تمام علل وطرق پر اطلاع نہ پا سکنا
(2) کسی متابعت و شاہد یا معتبر سند کا نظروں سے اوجھل رہ جانا یا اس تک رسائی حاصل نہ ہو پانا
(3) جرح مفسر و قادح جو کسی خاص راوی یا خاص روایت پر پہلے سے موجود ہوتی ہے۔
(4) مخفی علت کا رہ جانا
یعنی بظاہر روایت کی سند میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی ہوتی ہے مگر کوئی دوسرا محقق اس بارے جانتا ہوتا ہے تو وہ اس علت و خرابی کے سبب اس روایت پر ضعیف ،غیر محفوظ ،منکر کا حکم لگا دیتا ہے۔
یہی معاملہ بعض ڈگری ضعیف روایت پر حکم کا ہوتا ہے کہ وہ دیگر شواہد معتبرہ یا صحیح متابع کے ساتھ صحیح ہوتی ہے ۔ مگر حکم لگانے والے محقق سے وہ شاہد یا متابعت اوجھل رہ گئی۔
بہرحال یہ حکم الحدیث والا مسئلہ بھی اجتہادی ہے جو اکثر درست ہوتا ہے اور بعض اوقات ہی ایک محقق کا دوسرے محقق سے علمی اصولی اختلاف نظر آتا ہے جبکہ ایسا خالص اصول ودلائل کی روشنی میں ہوتا ہے۔
بس عامی کو چاہیے کہ محققین کے بارے میں اچھا گمان رکھے اور مزید تحقیق سامنے آنے پر جو راجح ہے اسے اختیار کرے۔
اس راجح کا علم بھی صاحب علم وفضل محقق ہی دے سکے گا جس پر عام شخص کو اعتماد کرنا چاہیے ہے۔
رہا عامی کا عمل کرنا تو اس نے ایک محقق کی تحقیق پر عمل کیا ہے اگر وہ ضعیف ہے تو یہ تب بھی گنہگار نہیں ہے کیونکہ اس کا عمل عمدا ضعیف روایت پر نہیں تھا اور جب اس روایت کے بارے کسی دوسرے محقق نے تحقیق پیش کی اور بتایا کہ دلائل کی روشنی میں یہ حکم الحدیث درست ہے تو اسے چاہیے کہ اسے اختیار کرے
یہی حسن ظن کا تقاضا ہے۔
یا یوں سمجھیں یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی مختلف فیہ فقہی مسئلہ ہے اور ہم اس میں علم ہو جانے کے بعد اسے اختیار کرتے ہیں جو اقرب الی الحق ہوتا یے۔
یحیی بن عبدک کو ایک روایت میں خطا پر جب اطلاع ملی تو انہوں نے فورا اصلاح کی اور یوں اعلان کیا
ﻭﻟﻢ ﺃﻣﻴﺰﻫﺎ ﻣﻨﺬ ﻋﺸﺮﻳﻦ ﺳﻨﺔ، ﺣﺘﻰ ﻭﺭﺩ ﻛﺘﺎﺑﻚ ﻭﺃﻧﺎ ﺃﺭﺟﻊ ﻋﻨﻪ ﻓﻘﺮﺃﺕ ﻛﺘﺎﺑﻪ ﻋﻠﻰ ﺃﺑﻲ ﺯﺭﻋﺔ. ﻓﻘﺎﻝ: “ﻫﺬا ﻛﺘﺎﺏ ﺃﻫﻞ اﻟﺼﺪﻕ، الضعفاء لأبي زرعة الرازي: 2/ 580
آپ دیکھیں محدثین کے زمانہ میں ایک روایت کی غلطی بیس سال تک معلوم نہیں ہو سکی حتی کہ دوسرے عالم کے خط کے ذریعے اس غلطی پر اطلاع پائی اور پھر اس سے اعلانیہ رجوع کیا اور جب امام ابو زرعہ الرازی پر رجوع والا خط پڑھا گیا تو آپ نے فرمایا:
یہ اہل صدق کا خط ہے۔
روایت حدیث میں تمیز
ایک راوی سے دوسرے راوی کے الفاظ کو الگ رکھنا اور متون میں معرفت حاصل کرنا بہت ضروری ہے گو یہ کافی مشکل ہے۔
مگر جن پر رب العالمین کی خاص عنایت ہو وہ متون واسانید کی مخفی علل وفرق سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں۔اور اس روایت سے معلوم ہوا کہ
جب یہ معاملہ محدثین کے زمانہ میں روات پر مشکل تھا تو بعد والوں پر تو اور زیادہ مشکل ہو گا۔
تو علل حدیث کے باب میں عجلت سے کام نہیں لینا چاہیے ہے۔
علل کے ماہرین متون واسانید اور راویوں کی مرویات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور آج ایسے لوگ نہایت کم ہیں۔ رب العالمین ائمہ محدثین کی جماعت سے راضی ہوں۔
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ