ٹھوس، مائع اور گیس بہ ظاہر مختلف نظر آتی ہیں مگر یہ مادے ہی کی ایک شکل ہوتی ہے۔یہ تمام اشیا ایک ذرّے سے وجود میں آئی ہیں جسے ایٹم کہا جاتا ہے۔سب سے پہلے اہلِ یونان نے بنیادی ذرّات کو ایٹم کا نام دیا۔1808 ء میں مانچسٹر کے ایک سکول ماسٹر ” جون ڈیلٹن “ نے ایک ایسا ایٹمی نظریہ پیش کیا، جس کی بنیاد ریاضی پر تھی۔گذشتہ صدی میں سائنس دانوں کا خیال تھا کہ ایٹم کو توڑنا اور اس میں کوئی تبدیلی کرنا ممکن نہیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ تحقیقات نے اس فرسودہ نظریے کو غلط ثابت کر دیا۔ایٹم بہت ہی مختصر ذرّہ ہوتا ہے جسے انتہائی حساس اور اعلا خُردبین سے بھی دیکھنا محال ہوتا ہے۔ایٹم کے ذرّے کی چھوٹائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اربوں کھربوں ایٹموں کا وزن بھی ایک بال کے وزن سے کم ہوتا ہے۔جب ایٹم بم کے مرکزہ کو توڑا جاتا ہے تو اس سے زبردست طاقت خارج ہوتی ہے، اسے جوہری توانائی کہتے ہیں۔
مادے کے بعض عناصر ایسے ہوتے ہیں جن سے خود بہ خود انتہائی تیز رفتار ذرّات، شعاعوں کی صورت میں نکلتے ہیں لیکن انسانی آنکھ اس روشنی کو نہیں دیکھ پاتی، یہ عمل تابکاری کہلاتا ہے اور اس کی بہ دولت ایک عنصر دوسرے عنصر میں تبدیل ہو جاتا ہے۔سائنس دانوں کو یہ تو پتا چل چکا تھا کہ ایٹم کے توڑنے سے حرارت اور روشنی کا ایک بہت بڑا طوفان پیدا کیا جا سکتا ہے، جس کا مقابلہ کوئی بھی چیز نہیں کر سکتی مگر انھیں یہ خبر بالکل نہ تھی کہ اس ایٹم کو کس طرح توڑا جائے؟
1938 ء میں ایک جرمن خاتون نے یہ راز پا لیا۔اس راز کے معلوم ہونے پر سائنس دانوں نے اپنی اپنی تجربہ گاہوں میں یہ تجربات کیے اور سب سے پہلے امریکی سائنس دانوں نے ایٹم بم بنا لیا۔امریکا نے ایٹمی ٹیکنالوجی کو مفید کاموں میں استعمال کرنے کی بجائے اسے دنیا کی تباہی اور انسانوں کی ہلاکت کے لیے استعمال کرنے کا ارادہ کر لیا۔
امریکا نے 6 اگست 1945 ء کو بی 29 طیارے کے ذریعے جاپان کے شہر ہیروشیما پر ایٹم بم گرا دیا، جس سے ایک لاکھ چالیس ہزار افراد چند لمحوں میں موت کے منہ میں چلے گئے، انسانوں کی اس قدر ہلاکت کے باوجود امریکا کے ظلم و جبر میں کوئی کمی نہ آئی، چناں چہ 9 اگست 1945 ء کو جاپان کے دوسرے شہر ناگاساکی پر ایٹم بم گرا دیا جس نے 74 ہزار افراد کو نگل لیا۔امریکا کی اس سفاکیت پر دنیا بھر کے لوگ سٹپٹا کر رہ گئے اور دنیا نے امریکا سے بچاؤ اور تحفّظ کے لیے ایٹم بم بنانے کو ضروری سمجھ لیا۔چناں چہ ایٹم بم بنانے کی ایک دوڑ شروع ہو گئی، پھر وقت کے ساتھ ساتھ چِین، روس فرانس اور برطانیہ نے ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کر لی مگر دنیا کے ستاون اسلامی اس ٹیکنالوجی سے محروم تھے۔پاکستان اگرچہ 1956 ء میں اٹامک انرجی کمیشن کی بنیاد رکھ چکا تھا مگر ایٹمی صلاحیت کے حصول کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہ کی گئی تھی۔
18 مئی 1974 ء بھارت نے راجستھان کے مقام پر ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔پاکستان یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ اگر اب ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے سنجیدگی سے توجہ نہ دی گئی تو بھارت اس کا جینا دوبھر کر دے گا۔
31 جولائی 1976 ء کو یورینیم کی افزودگی کے لیے انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹری قائم کی گئی
22 دسمبر 1976 ء کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہالینڈ کی تیس ہزار ماہانہ تنخواہ چھوڑ کر پاکستان آ گیا۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے صرف تین ہزار ماہانہ تنخواہ پر کام کرنے کی ہامی بھر لی۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ایٹم بم بنانے کے لیے اتنی اَن تھک محنت کی کہ جنرل ضیا ء الحق نے 1981 ء میں اس لیبارٹری کا نام تبدیل کر کے” ڈاکٹر اے کیو ریسرچ لیبارٹری “ رکھ دیا، جو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی صلاحیتوں کا اعتراف تھا۔1984 ء تک پاکستان ایٹم بم بنا چکا تھا مگر اس کا باقاعدہ اعلان اور دھماکا ہونا باقی تھا۔بھارت نے 11 مئی 1998 ء کو پوکھران کے مقام پر تین اور 13 مئی کو دو ایٹمی دھماکے کر ایک مرتبہ پھر برِصغیر پر تھانے داری جمانے کی کوشش کی۔یہ پاکستان کے لیے سنہرا موقع تھا کہ اب ایٹمی دھماکوں کا جواب ایٹمی دھماکوں سے دے کر دنیا کو بتا دے کہ پاکستان بھی ایٹمی قوت کا حامل مُلک ہے۔چناں چہ 28 مئی 1998 ء کو سہ پہر تین بج کر پندرہ منٹ پر چاغی کے مقام پر پانچ ایٹمی دھماکے کر دیے گئے، جس سے بھارت کے عزائم کی کمر مکمّل طور پر ٹوٹ گئی اور اُسے یہ یقین ہو گیا کہ اگر اب پاکستان کی طرف مَیلی نظروں سے دیکھا تو اس کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے اس کارنامے پر پاکستان کے صدر غلام اسحاق خان نے 23 مارچ 1990 ء کو ہلالِ امتیاز اور فاروق لغاری نے 25 مارچ 1997 ء کو نشانِ امتیاز دیا۔آج پاکستان وہ واحد اسلامی مُلک ہے جو ایٹمی توانائی جیسی دولت سے مالا مال ہے اور ہم اللہ کے حضور اس نعمت کا جتنا بھی شُکر ادا کریں، کم ہے۔