“القاب کا غلو: عزت یا دھوکہ؟”

حضرت رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“أنزلوا الناس منازلهم” (سن ابی داؤد:4842)

یہ حدیث اسلامی معاشرتی نظام کا ایک اہم اصول بیان کرتی ہے۔ اس میں اس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ ہر انسان کے ساتھ اس کی حیثیت، مقام، اور کردار کے مطابق سلوک کیا جائے تاکہ معاشرے میں عدل و انصاف، عزت، اور توازن برقرار رہے۔
حدیث کی تشریح اور مفہوم

1. عزت اور حیثیت کا احترام
نبی کریم ﷺ نے ہمیں یہ تعلیم دی کہ ہر انسان کا ایک سماجی، اخلاقی، اور دینی مقام ہوتا ہے، اور اس کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔
مثال کے طور پر علماء اور اہلِ علم کو ان کے علم اور کردار کی وجہ سے عزت دی جائے۔
والدین کو ان کے مقام کے مطابق ان کے ساتھ ادب و فرمانبرداری سے پیش آنا ضروری ہے۔
حاکمِ وقت کو اس کی ذمہ داری اور خدمت کے مطابق وقار دینا چاہیے۔
2. عدل اور انصاف کا قیام

“أنزلوا الناس منازلهم”

کا مطلب یہ بھی ہے کہ معاشرت میں عدل اور انصاف قائم کیا جائے۔ کسی کو اس کے جائز مقام سے کم تر نہ سمجھا جائے اور نہ ہی کسی نا اہل کو ایسا مرتبہ دیا جائے جس کا وہ مستحق نہ ہو۔ نبی کریم ﷺ کے دور میں اور خلفائے راشدین کے زمانے میں اس اصول پر عمل کیا جاتا تھا تاکہ معاشرتی نظام درست اور متوازن رہے۔
3. اہلیت اور قابلیت کے مطابق مقام دینا
یہ حدیث ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ذمہ داریاں ان لوگوں کے سپرد کی جائیں جو ان کے اہل ہوں۔ اگر نا اہل افراد کو اہم مناصب دیے جائیں یا مستحق افراد کو نظر انداز کیا جائے، تو معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوگا۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا ضُيِّعَتِ الأَمَانَةُ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ» قَالَ: كَيْفَ إِضَاعَتُهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: إِذَا أُسْنِدَ الأَمْرُ إِلَى غَيْرِ أَهْلِهِ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ۔

نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“جب امانت ضائع کی جائے تو قیامت کا انتظار کرو۔” صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم! امانت کیسے ضائع ہوگی؟ آپ نے فرمایا: جب معاملات نا اہلوں کے سپرد کیے جائیں۔” ( صحیح البخاری: 6496)
4. امتیازی سلوک سے بچنے کی تلقین
اس حدیث کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ ہمیں لوگوں کے ساتھ انصاف اور حسنِ سلوک سے پیش آنا چاہیے، خواہ وہ کسی بھی طبقے یا حیثیت سے تعلق رکھتے ہوں۔ کسی کو ظاہری حالت، مال و دولت، یا معاشرتی مقام کی بنیاد پر حقیر سمجھنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
5. معاشرتی نظام میں توازن کی ضرورت
نظامِ زندگی تبھی درست طور پر چل سکتا ہے جب ہر فرد کو اس کے مقام اور مرتبے کے مطابق حقوق اور عزت دی جائے۔ یہ اصول گھر سے لے کر ریاستی سطح تک لاگو ہوتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے خود بھی مختلف طبقات کے ساتھ ان کے مرتبے کے مطابق برتاؤ کیا۔
مثال کے طور پر قریش کے سرداروں کو عزت دی، غلاموں اور کمزوروں کے ساتھ نرمی سے پیش آئے، اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں ہر ایک کو اس کی خصوصیات کے مطابق مقام عطا کیا۔
خلاصہ کلام:
اگرچہ یہ حدیث انزلوا الناس منازلھم
سند کے اعتبار سے ضعیف ہے لیکن اگر اس کے معنیٰ و مفہوم کو دیکھا جائے تو وہ درست معلوم ہوتا ہے۔
لیکن افسوس! کہ آج ہمارے معاشرے میں یہ صورتحال بن چکی ہے کہ ہم ہر بندے کو اس کے مقام،مرتبے،رفعت،عظمت اور شان سے بڑھا کر اس کو عزت دینا شروع کر دیتے ہیں جو کہ درست اور صحیح بات نہیں ہے حالانکہ بعض لوگ تو حد سے زیادہ ہی غلو کر دیتے ہیں جیسا کہ وہ بندہ اس کا اہل ہی نہ ہو مثال کے طور پر آج کل ہمارے معاشرے میں اشتہار ڈیزائنر لکھ دیتے ہیں مفتی،حافظ، قاری،علامہ،شیخ الحدیث والتفسیر مصنف کتب کثیرہ اور دیگر القابات سے نواز دیتے ہیں حالانکہ وہ بندہ ان تمام القابات کا اہل ہی نہیں ہوتا۔

 یاسر مسعُود بھٹی
خادمُ العلم والعلماء

یہ بھی پڑھیں:اسلام میں سالگرہ کی شرعی حیثیت