“امام مسجد اور لاکھوں کی قربانی”

اسلام ایک ایسا دین ہے جو توازن، عدل، خیر خواہی، اور اخوت پر قائم ہے۔ قربانی، زکوٰۃ، صدقہ، خیرات یہ سب عبادات انسان کو اپنے مال میں دوسروں کا حق پہچاننے کی تعلیم دیتی ہیں۔ لیکن افسوس کہ ہم اکثر عبادات کے ظاہر کو تو اپناتے ہیں، مگر اس کے باطن کو فراموش کر دیتے ہیں۔ عیدالاضحٰی کا موقع آتا ہے تو لوگ لاکھوں روپے کے جانور خریدتے ہیں، قربانی کے گوشت کو فریزر بھرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں، مگر اسی شہر،اسی علاقے،اسی محلے، الغرض! اسی مسجد کے امام صاحب، جو سال بھر بچوں کو قرآن کریم پڑھاتے ہیں، نمازیں پڑھاتے ہیں، جنازے پڑھاتے ہیں، نکاح پڑھاتے ہیں، اصلاح کرتے ہیں, وہ نظر انداز کر دیے جاتے ہیں۔
حالانکہ قربانی کا مقصد تو فقظ تقویٰ، احسان، اور احساس تھا
جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

“لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ (سورۃ الحج: 37)

“نہ ان (قربانی کے جانوروں) کا گوشت اللہ تعالیٰ کو پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون، بلکہ اللہ تعالیٰ کو تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔”

اس آیت کا مفہوم بہت واضح ہے: قربانی کی اصل روح تقویٰ اور دل کی کیفیت ہے۔ اگر آپ لاکھوں کی قربانی کر رہے ہیں مگر دل میں سے غریبوں، اہلِ علم، مساجد کے خادموں اور اماموں کے لیے احساس نکل چکا ہے، تو قربانی صرف ایک رسم رہ جائے گی۔

امام مسجد محض ایک تنخواہ دار ملازم نہیں، بلکہ وہ:
محلے کا معلم ہے
دین کا مبلغ ہے
نسلوں کی تربیت کا ذمہ دار ہےجنازوں میں دعا کرنے والا، بیماروں کے لیے شفا مانگنے والا، خوشیوں میں شامل، غم میں شریک انسان ہے
افسوس در افسوس! کہ معاشرے نے اس شخصیت کو اکثر فقط “نماز پڑھانے والا” سمجھ کر اس کی عزت اور ضرورت کو کم تر کر دیا ہے۔

حقیقت کا رخ

عید قربان پر:
ایک بکرے کی قیمت 60 ہزار سے 1 لاکھ تک
ایک گائے میں حصہ 25 سے 40 ہزار تک
گوشت کے پیکٹ، قصائی کے نرخ، فریزر، برف، ٹرانسپورٹ حتیٰ کہ ہر چیز پر خرچ
لیکن کتنے گھروں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے:
“کیا امام مسجد کے گھر بھی قربانی ہو رہی ہے؟”
کتنے لوگ امام صاحب کو ایک بکرے کا گوشت ہی سہی، خلوص سے پیش کرتے ہیں؟ کیا کبھی ہم نے ان کی ضرورت، ان کے بچوں کی خوشیاں، یا ان کی عید کے دنوں کا حال جاننے کی کوشش کی؟

حلانکہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے تو فرمایا تھا کہ:

“ليس منا من لم يوقر كبيرنا، ويرحم صغيرنا، ويعرف لعالمنا حقه”(مسند احمد حسنه البانی)”

وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے، چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے علماء کے حق کو نہ پہچانے۔”
یہ حدیث ہمیں معاشرتی ذمہ داری کا درس دیتی ہے۔ امام مسجد نہ صرف عالم ہوتا ہے بلکہ ایک معزز، خدمت گزار اور صابر انسان بھی ہوتا ہے، جس کی قدر کرنی چاہیے۔

یاسر مسعود بھٹی
خادمُ العلم والعلماء

یہ بھی پڑھیں:اھل بیت کون؟