سوال (2044)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اے عمار ! آپ کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔ یہ حدیث لے کر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے تفصیل مطلوب ہے؟

جواب

علامہ مبارک پوری رحمہ اللہ اس حدیث “تَقْتُلُ عَمَّارًا الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ” کے تحت فرماتے ہیں : عام مؤرخین کا خیال ہے کہ سیدنا عمار کو جنگِ صفین والے دن سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے گروہ نے قتل کیا اور یہ حدیث دلیل ہے کہ سیدنا علی المرتضی کی خلافت بر حق تھی اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا عمل خروج و بغاوت تھی۔۔۔۔۔۔۔(مفہوم)
یہ کلام نقل کرنے کے بعد علامہ مبارک پوری رحمہ اللہ نے صراحتًا لفظِ “قُلْتُ” کے بعد اپنا نظریہ یوں لکھا کہ یہ معاملہ ان مورخین کی ذکر کردہ باتوں سے کہیں زیادہ باریکی و دقت والا ہے اور اس معاملہ میں سکوت ہی اولٰی و افضل ہے ۔
پھر اسی حدیث کی شرح میں علامہ مبارک پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سیدنا عمار بن یاسر کو قتل کرنے والے وہی افراد تھے ، جنہوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا ، تاکہ وہ اس بنیاد پر سیدنا علی المرتضی کے گروہ کو حق پر ثابت کر سکیں.اس کا سبب یہ ہے کہ سیدنا عمار بن یاسر والی حدیث لوگوں میں معروف تھی اور قاتلین عثمان بلا شک و شبہ باغی تھے۔
اس کے بعد علامہ مبارک پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

وهذا الذي يفيده قول معاوية حين قيل له في ذلك فقال: أنحن قتلناه؟ إنما قتله الذين جاءوا به [منة المنعم ٣٦٣/٤]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اتَّفَقَ أَهْلُ السُّنَّةِ عَلَى أَنَّهُ لَا تَفْسُقُ وَاحِدَةٌ مِنَ الطَّائِفَتَيْنِ، وَإِنْ قَالُوا فِي إِحْدَاهُمَا: إِنَّهُمْ كَانُوا بُغَاةً؛ لِأَنَّهُمْ كَانُوا مُتَأَوِّلِينَ مُجْتَهِدِينَ، وَالْمُجْتَهِدُ الْمُخْطِئُ لَا يُكَفَّرُ وَلَا يُفَسَّقُ،

اہل السنہ کا اتفاق ہے کہ (جنگِ جمل و صفین) میں دونوں گروہوں میں کوئی بھی گروہ “فاسق” نہیں تھا۔ ان میں سے ایک گروہ(سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ)کے بارے اگرچہ اہل علم نے لفظ “باغی” استعمال کیا ہے کیونکہ وہ متأوّل و مجتھد تھے اور مجتھد و مخطئ شخص کی تکفیر و تفسیق جائز نہیں ہے۔
[منهاج السنة النبوية ٣٩٤/٤]
اگر امیر معاویه کا گروہ باغی گروہ ہوتا، تو رسول الله کبھی بھی معاویه رضي الله عنه کے گروہ کو مسلمانوں کی عظیم جماعت نہ کہتے، اور باغی گروہ کے لیڈر، امیر معاویه رضي الله عنه، کبھی بھی سمندری بیڑے میں شامل ہوکر خصوصی جنت کی بشارت سے مستفید نہ ہوتے، اور علی رضی الله عنه کبھی بھی معاویه رضي الله عنه کے گروہ کے مقتولین کو جنتی نہ کہتے، اور حسن رضی الله عنه کبھی بھی معاویه رضى الله عنه سے صلح نہ کرتے۔

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ

الله تعالی کے اس ارشاد پر خوب غور کریں !

وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا ۖ فَإِن بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَىٰ فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّىٰ تَفِيءَ إِلَىٰ أَمْرِ اللَّهِ ۚ فَإِن فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا ۖ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ
[الحجرات: 9]

یہاں سوال ہے کہ باغی گروہ سے مراد اگر سیدنا امیر معاویہ تھے تو ان سے صلح کیوں کی۔
کیا باغی سے صلح کا کرنا درست ہے قرآن کے موافق ہے یا مخالف؟
سیدنا امیر معاویہ سے صلح ہو جانا بتاتا ہے کہ وہ حکم الہی کے اوپر قائم رہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ حقیقت میں باغی گروہ وہی تھا ، جس نے سیدنا عثمان رضی الله عنہ کو شہید کیا، پھر بعد میں وہی لوگ سیدنا علی المرتضیٰ رضی الله عنہ کے ساتھ شامل ہو گئے تھے، پھر بعد میں ان سے الگ ہو کر بغاوت کر دی دراصل یہ خوارج ہی تھے، جن سے سیدنا علی المرتضیٰ رضی الله عنہ نے قتال کیا تھا اور سیدنا امیر معاویہ سے صلح کی تھی۔
اور اسی باغی گروہ نے سیدنا عمار کو شہید کیا تھا اور یہی جہنم کی طرف بلانے والے تھے نہ کہ صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین جنہیں رب العالمین نے راشدون، فائزون، مھتدون، مفلحون جیسے مبارک الفاظ سے یاد فرمایا جن سے ان کا عادل و ثقہ ہونا ثابت ہوتا ہے اور اعلی درجے کا ایمان والا قرار دیا جانا بھلا وہ کیسے جہنم کی طرف بھلا سکتے تھے ، یہ تو عقل و نقل دونوں کے خلاف ہے اور علمی وتحقیقی میدان میں بالکل ثابت نہیں ہے
قرآن کریم کی اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ
دونوں فریق کو رب العالمین نے مومن بولا ہے حدیث رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے مسلمانوں کی دو بڑی جماعت بولا ہے اور یہ کہ مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے کے باوجود مسلم ، مومن ہی رہتے ہیں اسلام سے خارج نہیں ہوتے، رہا حدیث میں “و قتاله كفر” تو اس سے مراد کفر دون کفر ہے, یعنی کفر اصغر ہے ، ایسا کفر نہیں جس سے کفر اکبر لازم آئے، اس سے بس ایمان میں کچھ کمی واقع ہوتی ہے ۔
امیر معاویہ رضی الله عنہ ان صحابہ کرام میں سے جن کے ساتھ الله تعالی نے جنت کا وعدہ فرمایا ہے
ارشاد باری تعالی ہے:

لَا يَسْتَوِي مِنكُم مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ ۚ أُولَٰئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِينَ أَنفَقُوا مِن بَعْدُ وَقَاتَلُوا ۚ وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ [سورة الحديد : 10]

تم میں سے جس نے فتح (مکہ) سے پہلے خرچ کیا اور جنگ کی وہ (یہ عمل بعد میں کرنے والوں کے) برابر نہیں۔ یہ لوگ درجے میں ان لوگوں سے بڑے ہیں جنھوں نے بعد میں خرچ کیا اور جنگ کی اور ان سب سے اللہ نے اچھی جزا کا وعدہ کیا ہے اور اللہ اس سے جو تم کرتے ہو، خوب باخبر ہے۔
اس فرمان رب العالمین کی روشنی میں معلوم ہوا فتح مکہ سے اسلام قبول کرنے اور انفاق فی سبیل الله میں خرچ کرنے والے اور فتح کے موقع پر اور اس کے بعد اسلام قبول کرنے والے انفاق فی سبیل الله اور جہاد کرنے والے ان سب کے لیے الحسنی یعنی جنت کا وعدہ ہے ہاں ان کے مراتب و درجات میں فرق ہے
تو ایک جنتی صحابی کی ساری زندگی رب العالمین کے علم میں تھی اگر ان کا خطاء سنجیدہ اور قابل گرفت تھی ، تو رب العالمین نے انہیں اپنی رضا،اور دائمی جنت کے انعام سے کیوں نوازا رب العالمین تو عالم الغیب تھے ، پھر وحی الٰہی کے زمانہ میں ان کے بارے میں کوئی ناراضگی وعید وغیرہ کے بارے حکم کیوں نازل نہیں فرمایا ، رب العالمين نے انہیں یہ اعزاز وشان کیوں عطاء فرمائی:

وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ [التوبہ: 100]
ا

حسان کے ساتھ پیروی کرنے والوں میں سیدنا معاویہ بھی شامل ہیں ، پھر بھی ہم ان کے بارے دل میں نفاق رکھیں اور زبان قلم سے زہر آگیں تو اس کا مطلب ہے ہمارے قرآن کریم میں موجود رب العالمین کے فرامین عالیہ وصافیہ پر کوئی ایمان نہیں ہے ، اور قرآن کریم ابھی تم ہمارے حلق سے نیچے نہیں اترا ہے بے شرمو سوچو ذرا کدھر جا رہے ہو۔
رب العالمین نے صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین کے مناقب،شان وعظمت کو بیان فرمایا ان کے اوصاف جمیلہ جہاد،انفاق فی سبیل الله کو رکوع سجود ذکر الله ایمان وتقوی کو بیان فرمایا ہے، تو تم بھی ان کے فضائل و مناقب شان وعظمت کو بیان کرو نہ کہ تم نفاق کے بیج بونے لگو اور رب العالمین کی ناراضگی کو اپنا مقدر بنا لو
رب العالمین کے اس ارشاد پر غور کرو

وَلَٰكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ [الحجرات:7]

اور لیکن اللہ نے تمھارے لیے ایمان کو محبوب بنا دیا اور اسے تمھارے دلوں میں مزین کردیا اور اس نے کفر اور گناہ اور نافرمانی کو تمھارے لیے ناپسندیدہ بنا دیا، یہی لوگ ہدایت والے ہیں۔
غور کریں جن کے لیے الله تعالی نے ایمان پسند فرمایا جن کے لیے الله تعالی نے کفر،گناہ اور نافرمانی کو ناپسندیدہ بنا دیا جنہیں رب العالمین نے راشدون فرمایا
وہ مبارک ہستیاں بھلا کیسے گناہ اور زیادتی میں مبتلا ہو سکتی ہیں ۔
اور جو یہ معروف ہے کہ نیزوں پر قرآن بلند کیے گیے وغیرہ وغیرہ یہ سب افواہ اور من گھڑت غیر ثابت باتیں ہیں ۔
زیادہ تر تاریخ باتیں جو معروف ہیں سب من گھڑت کذاب ووضاع لوگوں کی گھڑنے ہیں جیسے ابو مخنف لوط بن یحیی،محمد بن سائب کلبی کذاب،واقدی وغیرہ
مشاجرات صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین پر رب العالمین نے کوئی منفی ایکشن نہیں لیا کیونکہ وہ بعض اجتہادی اختلافات تھے دونوں فریق ایمان پر قائم تھے،ایک دوسرے کے ساتھ مخلص اور درد رکھنے والے ایک دوسرے کو مسلم سمجھنے والے تھے۔
پھر سوال ہے
سیدنا علی المرتضیٰ کا کوئی منفی بیان، غلط تاثر امیر معاویہ اور ان کے ساتھ اصحاب کے بارے میں ثابت کر دو۔
کیا تمہاری طرح ان کی سوچ اور فکر تھی ان اصحاب عظیم کے بارے میں ۔۔
رضى الله عنهم أجمعين

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ