سوال (776)
ابن شماسہ مہری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوئے، وہ موت کےسفر پر روانہ تھے، روتے جاتے تھے اور اپنا چہرہ دیوار کی طرف کر لیا تھا۔ ان کا بیٹا کہنے لگا: ابا جان! کیا رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو فلاں چیز کی بشارت نہ دی تھی؟ کیا فلاں بات کی بشارت نہ دی تھی؟ انہوں نے ہماری طرف رخ کیا اور کہا: جو کچھ ہم (آئندہ کے لیے) تیار کرتے ہیں، یقیناً اس میں سے بہترین یہ گواہی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ا ور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسو ل ہیں۔ میں تین درجوں (مرحلوں) میں رہا۔ (پہلا یہ کہ) میں نے اپنے آپ کو اس حالت میں پایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مجھ سے زیادہ بغض کسی کو نہ تھا اور نہ اس کی نسبت کوئی اور بات زیادہ پسند تھی کہ میں آپ پر قابو پا کر آپ کو قتل کر دوں۔ اگر میں اس حالت میں مر جاتا تو یقیناً دوزخی ہوتا۔ (دوسرا مرحلے میں) جب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام کی محبت پیدا کر دی تو میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اپنا دایاں ہاتھ بڑھایئے تاکہ میں آپ کی بیعت کروں، آپ نے دایاں ہاتھ بڑھایا، کہا: تو میں نے اپنا ہاتھ (پیچھے) کھینچ لیا۔ آپ نے فرمایا: ”عمرو! تمہیں کیا ہوا ہے؟“ میں نے عرض کی: میں ایک شرط رکھنا چاہتا ہوں۔ فرمایا: ” کیا شرط رکھنا چاہتے ہو؟“ میں نے عرض کی: یہ (شرط) کہ مجھے معافی مل جائے۔ آپ نے فرمایا: ” عمرو! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اسلام ان تمام گناہوں کو ساقط کر دیتا ہے جو اس سے پہلے کے تھے؟ او رہجرت ان تمام گناہوں کوساقط کر دیتی ہے جو اس (ہجرت) سے پہلے کیے گئے تھے اور حج ان سب گناہوں کو ساقط کر دیتا ہے جو اس سے پہلے کے تھے۔“ اس وقت مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ محبوب کوئی نہ تھا اور نہ آپ سے بڑھ کر میری نظر میں کسی کی عظمت تھی، میں آپ کی عظمت کی بنا پر آنکھ بھر کر آپ کو دیکھ بھی نہ سکتا تھا اور اگر مجھ سے آپ کا حلیہ پوچھا جائے تو میں بتا نہ سکوں گا کیونکہ میں آپ کو آنکھ بھر کر دیکھتا ہی نہ تھا اور اگر میں اس حالت میں مر جاتا تو مجھے امید ہے کہ میں جنتی ہوتا، پھر (تیسرا مرحلہ یہ آیا) ہم نےکچھ چیزوں کی ذمہ داری لے لی، میں نہیں جانتا ان میں میرا حال کیسا رہا؟ جب میں مر جاؤں تو کوئی نوحہ کرنےوالی میرے ساتھ نہ جائے، نہ ہی آگ ساتھ ہو اور جب تم مجھے دفن کر چکو تو مجھ پر آہستہ آہستہ مٹی ڈالنا، پھر میری قبر کے گرد اتنی دیر (دعا کرتے ہوئے) ٹھہرنا، جتنی دیر میں اونٹ ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کیا جا سکتا ہے تاکہ میں تمہاری وجہ سے (اپنی نئی منزل کے ساتھ) مانوس ہو جاؤں اور دیکھ لوں کہ میں اپنے رب کے فرستادوں کو کیا جواب دیتا ہوں۔ [صحیح مسلم : 121]
سوال یہ ہے کہ اس حدیث کا مفہوم کیا ہے؟
جواب
(1) : حدیث میں اسلام، ہجرت اور حج کی عظمت اور مقام ومرتبہ ظاہر ہے، اگر یہ کام اخلاص اور حسنِ نیت سے کیے جائیں تو ان سے پہلے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور گناہوں کی نحوست سے پاک ہو کر انسان نیکی کرنے کا جذبہ حاصل کر لیتا ہے، اسلام لاتے ہی مبغوض ترین شخصیت، محبوب ترین بن جاتی ہے۔
(2) : جاہلیت کے دور میں مرنے والے کے ساتھ، اس کی عظمت اور قدر ومنزلت کے اظہار کے لیے ماتم کرنے والی جاتی تھیں،اور اس کی جود وسخا کی طرف اشارہ کرنے کے لیے آگ بھی ساتھ لے جائی جاتی تھی، جاہلیت کے اس شعار کو اسلام نے ختم کر دیا۔
(3) : حاضرین کو قبر پر مٹی ڈالنا چاہیے۔
میت کو دفن کرنے کے بعد قبر کے پاس کچھ وقت کے لیے رک کر ثابت قدمی کی دعا کرنا مسنون ہے۔ لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قبر کے پاس جو گفتگو کی جاتی ہے قبر والا اس کو سنتا ہے۔
[تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم :حدیث\صفحہ نمبر: 321]
فضیلۃ العالم محمد مرتضی ساجد حفظہ اللہ
یہ سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا اجتہاد ہے ، نبی علیہ السلام کی سنت سے اس کی تائید نہیں ہوتی ہے ، “میں تم سے مانوس ہو جاؤں ” یعنی میں تمہاری دعا سے ثابت قدم رہوں ۔
فضیلۃ الباحث واجد اقبال حفظہ اللہ