سوال (3681)

اب امام شعبی ایک شخص عمرو بن مالک کا واقعہ سناتے ہیں کہ جسے بعد میں امام خرائطی نے اپنی كتاب الهواتف الجنان” میں محفوظ کر لیا تھا کہ جہاں سے میں اب آپ کو سنانے والا ہوں۔ کہتے ہیں کہ عمرو بن مالک کی ایک بیٹی ہوا کرتی تھی کہ جسے ایک رات عمرو نے پانی لینے کے لیے ایک کنویں پر بھیجا کہ جس کے بعد دوبارہ پھر اس لڑکی کو کبھی کسی نے نہیں دیکھا۔ عمرو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنی لڑکی کی تلاش میں کوئی پہاڑ، کوئی قبیلہ، کوئی گھاٹی نہیں چھوڑی لیکن اس کا ہمیں دوبارہ کچھ پتہ نہیں چلا یہاں تک کہ ایک طویل عرصہ گزر گیا اور ہمارے دلوں میں اس بچی کی صرف ایک یاد ہی باقی رہ گئی، لیکن ایک رات میں اپنے خیمے کے نیچے بیٹھا صحراء کی طرف دیکھ رہا تھا کہ دور سے مجھے ایک سایہ آتا دکھائی دیا۔ اور جب وہ میرے قریب پہنچا تو میں نے دیکھا کہ یہ تو میری وہی بیٹی ہے۔ اسے گلے سے لگا کر میں رونے لگ گیا لیکن بعد میں. میری ہوش سنبھلی اور میں نے اسے غور سے دیکھا، تو میں گھبرا گیا۔ کیوں کہ اس کے عجیب لمبے ناخن، جگہ جگہ سے گرے ہوئے بال اور جسم پر ایسے کہ جیسے گوشت نام کی کوئی شئے نہیں بچی۔
کچھ دن گزرے۔۔۔ اور اس کی صحت سنبھلنا شروع ہوئی تو ہم نے اس سے پوچھا۔۔۔ کہ بیٹی تم کہاں چلی گئی تھی تو اس نے بتایا۔۔۔
کہ جس رات آپ نے مجھے کنویں میں سے پانی لینے بھیجا تھا اس رات، کالے رنگ اور لمبے قد کا ایک سایہ۔۔۔ کنویں سے نکل کر مجھے اپنے ساتھ لے گیا تھا اور کہ جو۔۔۔ کوئی انسان نہیں تھا۔ ان تمام سالوں اس سائے نے مجھے اپنے پاس رکھا لیکن بخدا اس نے مجھ سے کبھی کوئی نازیبا حرکت نہیں کی لیکن ایک روز .. جنات کے کسی اور گروہ نے اس کے ساتھ گھمسان کی ایک لڑائی لڑی۔
اس واقعے کی حقیقت درکار ہے۔

جواب

امام خرائطی (وفات: 327 ہجری) کی کتاب “الهواتف” عمومی طور پر جنات اور ماورائی واقعات سے متعلق روایات پر مشتمل ہے، جن میں سے کئی ضعیف یا غیر مستند کہانیاں بھی شامل ہیں۔
الهواتف الجنان” میں بیان کیے گئے واقعات کی سند عام طور پر مکمل نہیں ہوتی۔
امام خرائطی نے بعض واقعات کو “قیل” (یعنی کہا جاتا ہے) یا “بلغنا” (ہمیں پہنچا ہے) جیسے الفاظ کے ساتھ بیان کیا ہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ان واقعات کی سند مکمل نہیں ہے۔
بعض اوقات، ان واقعات کو “عن فلان”(فلاں شخص سے) کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے، لیکن ان راویوں کے بارے میں کوئی تفصیلات نہیں دی جاتیں، جس کی وجہ سے ان کی سند کمزور ہو جاتی ہے۔
امام ابن تیمیہ، امام ذہبی، امام ابن القیم:
جیسے ائمہ نے اس طرح کی کتب کو ضعیف الروایات کے زمرے میں رکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسی کتب میں بیان کیے گئے واقعات کی سند کمزور ہوتی ہے، اور ان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔
امام نووی اور امام سیوطی نے بھی اس طرح کی کتب کو عجائب و غرائب کی کتب میں شمار کیا ہے اور ان کی اسنادی حیثیت کو کمزور قرار دیا ہے۔
ائمہ ومحدثین کے اقوال:
1) امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس طرح کی کتب کے بارے میں فرمایا ہے:

“وَكَذَلِكَ مَا يُحْكَى عَنْ بَعْضِ الْكُتُبِ مِنَ الْعَجَائِبِ وَالْغَرَائِبِ، فَإِنَّهُ لَا يُعْتَمَدُ عَلَيْهِ، لِأَنَّهُ لَيْسَ لَهُ إِسْنَادٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ يَكُونُ مِنْ أَخْبَارِ الْقَصَّاصِينَ الَّذِينَ لَا يُحْتَرَزُونَ فِي نَقْلِ الْأَخْبَارِ.”

“اور اسی طرح بعض کتب میں جو عجائب و غرائب کے واقعات بیان کیے جاتے ہیں، ان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ ان کی سند صحیح نہیں ہوتی۔ یہ قصہ گو لوگوں کی روایات ہوتی ہیں، جو خبروں کے نقل میں احتیاط نہیں برتتے۔” مجموع الفتاوى: ج 11، ص 303 ”
2) امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس طرح کی کتب کے بارے میں لکھا ہے:

“وَكَثِيرٌ مِنْ هَذِهِ الْأَخْبَارِ الَّتِي تُحْكَى فِي الْكُتُبِ لَا أَصْلَ لَهَا، وَإِنَّمَا هِيَ مِنْ أَخْبَارِ الْقَصَّاصِينَ وَالْوَضَّاعِينَ.”

“اور ان کتب میں بیان کیے گئے بہت سے واقعات کی کوئی اصل نہیں ہوتی۔ یہ صرف قصہ گو اور جعل ساز لوگوں کی روایات ہوتی ہیں۔” میزان الاعتدال: ج 1، ص 5″
3) امام ابن القیم رحمہ اللہ نے اس طرح کی کتب کے بارے میں فرمایا ہے:

“وَمِنْ هَذَا الْبَابِ مَا يُحْكَى فِي بَعْضِ الْكُتُبِ مِنَ الْعَجَائِبِ وَالْغَرَائِبِ، وَهِيَ أَخْبَارٌ لَا تَثْبُتُ، وَلَا يَجُوزُ الْعَمَلُ بِهَا.”

“اور اسی قسم کی وہ کتب ہیں جن میں عجائب و غرائب کے واقعات بیان کیے جاتے ہیں۔ یہ ایسی خبریں ہیں جو ثابت نہیں ہوتیں، اور ان پر عمل کرنا جائز نہیں ہے۔” المنار المنيف (ص 96)۔
4) امام ابن کثیر رحمہ اللہ:
امام ابن کثیر نے اپنی تفسیر “تفسیر ابن کثیر”(سورۃ الجن، آیت 1 کے تحت) میں فرمایا ہے:

“وَكَثِيرٌ مِمَّا يُحْكَى عَنِ الْجِنِّ مِنَ الْعَجَائِبِ لَا أَصْلَ لَهُ فِي الشَّرْعِ، وَإِنَّمَا هُوَ مِنْ أَخْبَارِ الْقَصَّاصِينَ.”

“اور جنات سے متعلق جو بہت سے عجائب و غرائب کے واقعات بیان کیے جاتے ہیں، ان کی شرعی طور پر کوئی اصل نہیں ہے۔ یہ صرف قصہ گو لوگوں کی روایات ہیں۔”
5) امام نووی رحمہ اللہ:

“وَالْأَخْبَارُ الَّتِي تُحْكَى فِي بَعْضِ الْكُتُبِ مِنَ الْعَجَائِبِ لَا يُعْتَمَدُ عَلَيْهَا، لِأَنَّهَا لَا تَثْبُتُ بِإِسْنَادٍ صَحِيحٍ”۔

“اور بعض کتب میں جو عجائب و غرائب کے واقعات بیان کیے جاتے ہیں، ان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ وہ صحیح سند سے ثابت نہیں ہوتے۔”المجموع شرح المهذب، ج 1، ص 60”
6) امام سیوطی رحمہ اللہ:

“وَمَا يُحْكَى فِي بَعْضِ الْكُتُبِ مِنَ الْعَجَائِبِ لَا يَصِحُّ إِسْنَادُهُ، وَإِنَّمَا هُوَ مِنْ أَخْبَارِ الْقَصَّاصِينَ.”

“اور بعض کتب میں جو عجائب و غرائب کے واقعات بیان کیے جاتے ہیں، ان کی سند صحیح نہیں ہوتی۔ یہ صرف قصہ گو لوگوں کی روایات ہیں۔” تدريب الراوي: ج 1، ص 278″

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ

أحسنتم وبارك فيكم وعافاكم
اگر ایسے واقعات میں کوئی خلاف شرع بات نہیں تو بطور حکایت کے بیان کر سکتے۔

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ