ہمارے بعض اساتذہ موجودہ سیاسی جمہوری نظام میں شرکت کے جواز کےلیے

کانت بنو اسرائیل تسوسھم الانبیاء

کی صحیح السند حدیث سے استدلال کرتے ہیں  مگر یہ استدلال انتہائی ناقص بلکہ فی الحقیقت تحریف ہے ، (1) کیا انبیاء کرام علیھم السلام نے اپنی موجودگی میں مختلف لوگوں کو سیاسی جماعتیں بنانے کی اجازت دی تھی ؟ (2) کیا انیوں نے لبرل اور سیکولر قوتوں کے ساتھ مل کر انتخابات میں حصہ لیا تھا ؟ (3) کیا انھوں نے مغربی جمیوریت کو مالہ وماعلیہ کے ساتھ حق تسلیم کیا تھا ؟ ( 4) کیا انہوں نے ایسے بگڑے معاشرے میں جاہل اکثریت کے فیصلے کوحق قرار دیا تھا ؟

( 5) کیاانبیاء کرام علیھم السلام نے عوام کا اپنی ذات کےلیے ووٹ مانگنے اورطلب کرنے کو جائز قراردیا تھا؟(6) کیاانبیاء کرام نے مسلمانوں کو یہ اختیاردیاتھا کہ چاہے تو شریعت کے حق میں رائے دیں اورچاہے تو اس کے خلاف رائے دیں ؟ (7) کیا انبیاء کرام علیھم السلام نےاقلیتی لوگوں کو بھی اپنے برابرکا تسلیم کیا تھا ؟(8) کیاانبیاء کرام علیھم السلام نے حزبِ اقتدار وحزبِ اختلاف کے وجودکوتسلیم کیا تھا ؟ اورایک کو دوسرے پربلا شرعی جوازکے تنقید کرنے کاحق دیا تھا ؟(9) کیاانبیاء کرام علیھم السلام نے قیامِ دین کےلیے مختلف مذہبی جماعتوں کے قیام کو جائز رکھا تھا؟ (10) کیاانبیاء کرام علیھم السلام نے یہ جائز رکھاتھا کہ ایک اسلامی جماعت کے برسرِ اقتدارآنے کے بعد دوبارہ سیکولر جماعتوں کواقتدار میں آنے کاموقع فراہم کردینگے ؟ اگرایسا نہیں ہے اور یقینا نہیں ہے تو پھر اس حدیث کو موجودہ سیاسی کھیل پرفٹ کرنا محض حدیثِ رسول علیہ السلام میں تحریف کاارتکاب کرنا ہے اورکچھ نہیں ہے ۔

واصل واسطی