آپ کی بیاضِ دل پر ایک سوال

مَیں آپ کی بیاضِ دل پر ایک سوال رقم کرنا چاہتا ہوں، ایک ایسا سوال کہ اگر آپ کا دریچہ ء احساس اس سوال کے جواب کی تابناک کرنوں سے جگمگا اٹھا تو پھر نہ صرف اندھیرے اور تیرگیاں مٹ جائیں گی بلکہ ہم بڑے ہی سعید بخت اور اقبال مند بھی ٹھہریں گے۔ اللہ تعالی نے انسان کو بے بہا حُسن و جمال سے نوازا ہے۔ اس کا جسم، اس کی ساخت ایسے منظّم، مربوط اور ہمہ قسم کی ضرورت کے تقاضوں کے اتنی مطابق ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے اور انسان حیرت کدے میں گم ہو جاتا ہے، ایک انسان کیا! اس ساری کائنات کو دیکھ کر انسان اَش اَش کر اٹھتا ہے۔ یہ انسان بڑا ہی قیمتی اور اَن مول ہے۔ اس کے جسم کا ایک ایک حصّہ اتنا اَہَم اور گراں مایہ ہے کہ جس کی قیمت کا اندازہ لگانا محال ہی نہیں، ناممکن بھی ہے۔
یوں تو انسان کے جسم کے اندر اور باہر کا ہر حصّہ ہی زندگی کا جزوِلاینفک ہے مگر انسان کے اندر دل، دماغ، جگر، پھیپھڑے، آنت اور گُردے انسانی زندگی کے لیے ناگزیر ہیں۔ اگر ان میں کوئی خرابی یا نقص پیدا ہو جائے تو زندگی اجیرن ہو کر رہ جاتی ہے اور انسان دکھوں اور بیماریوں کی ایک آماج گاہ بن جاتا ہے۔ انسانی گُردوں ہی کو لے لیجیے کہ یہ اتنے اہم ہیں کہ اگر خدانخواستہ یہ ناکارہ ہو جائیں تو پوری زندگی ڈائیلسز کے جاں گسل اور اذیت ناک مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ جب کوئی بھی چارہ ء کار نہ رہے تو ڈاکٹرز ایسے مریض کو کسی ایسے شخص کا گُردہ لگا دیتے ہیں جو اپنا گردہ عطیہ کر دے یا فروخت کر ڈالے۔
گُردے کی تبدیلی کا پہلا کامیاب آپریشن 1964 میں کیا گیا، اس کے بعد سرجری کی دنیا میں مزید انقلاب رونما ہوئے اور پھر 1967 ء میں جگر اور دل کی پیوند کاری کی گئی۔ امریکا میں گُردے کے آپریشن کی قیمت ایک لاکھ ڈالرز کے قریب ہے۔ جب کہ گُردہ فروخت کرنے والے کو اکثر و بیشتر 5 ہزار ڈالر ہی ادا کیے جاتے ہیں۔ سنگاپور میں تین لاکھ ڈالر میں گردے کی سرجری کی جاتی ہے۔ آج کل تو یہ قیمتیں کافی کم بھی ہو چکی ہیں۔2007 ء میں یہی گُردہ 6 لاکھ 58 ہزار ڈالر کا تھا، ان میں سے 23 ہزار ڈالر تشخیص کی فِیس، 40 ہزار ڈالر ڈاکٹر کی فِیس، 3 لاکھ 83 ہزار ہسپتال کے اخراجات اور 93 ہزار ڈالر آپریشن کے بعد نگہداشت اور ادویات کے اخراجات بھی شامل تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گُردے اتنے اہم اور قیمتی ہیں کہ ان کے بغیر زندگی کا تصوّر ہی ممکن نہیں۔ اللہ کا ہم جتنا بھی شُکر ادا کریں، کم ہے کہ اس احکم الحاکمین نے ہمارے جسم میں دو گُردے مفت میں ہی لگا دیے ہیں۔
اب سائنس اتنی ترقی کر چکی ہے کہ سائنس دانوں نے پہلی بار سٹیم سیلز کی مدد سے انسانی دل بنا لیا ہے اور یہ اسی طرح کام کرتا ہے جس طرح انسانی دل کے”والوو“ کام کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل روزنامہ گارڈین سے بات کرتے ہوئے اس کام کے سربراہ مگدی یعقوب نے بتایا تھا کہ آئندہ چند سالوں میں سائنس دان سٹیم سیلز کی مدد سے پورا انسانی دل بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس سے نہ صرف دل کی پیوندکاری ممکن ہو سکے گی بلکہ دل کے امراض کے علاج میں بھی مدد ملے گی۔ اس مصنوعی دل کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ پاکستانی کروڑوں روپے میں اس کی پیوندکاری ممکن ہو سکے گی۔آئیے! اپنے پروردگار کا شُکر ادا کریں کہ اس نے ہمارے سینے کے اندر مفت میں یہ دل لگا دیا ہے جو تازیست انسان کے جسم کو خون مہیا کر کے زندگی کو سہل بنانے میں ممدومعاون ثابت ہوتا ہے۔
آپ تھیلیسیمیا کے مریضوں کو دیکھ لیں کہ اگر جگر کام کرنا بند کر دے تو ایسے مریض کو ہر ہفتے دو ہفتے بعد خون کی اشد ضرورت پڑتی ہے اور اگر خون نہ ملے تو ایسا مریض موت وحیات کی کش مکش میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
جگر کے کینسر میں مبتلا افراد کی حالت اس قدر ابتر ہو جاتی ہے کہ جگر کی پیوندکاری کے سوا کوئی چارہ ئکار نہیں رہتا۔جگر کی تبدیلی کا سستا ترین آپریشن چین میں کیا جاتا ہے جہاں 40 سے 50 لاکھ روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔ آئیے! پھر اپنے رب کا شُکر ادا کریں کہ اس ربّ العالمین نے ہمارے جسم میں خون بنانے والی یہ فیکٹری بھی مفت میں لگا رکھی ہے جو ہر لمحہ اور ہر پَل خون بنانے میں مصروف ہے۔
انسانی دل، جگر اور گردے کے بعد آنکھ کی انسانی زندگی میں بہت اَہمّیت ہے کہ اس کے بغیر ساری دنیا ہی تاریک ہو جاتی ہے۔ سائنس دانوں نے ایک آنکھ بھی تیار کر لی ہے جو سولر پینل کی طرح روشنی سے چارج ہوتی ہے، اس قبل ان آنکھوں کو بیٹریوں سے چارج کیا جاتا تھا۔ اس مصنوعی آنکھ میں ریٹینا کی ٹرانسپلانٹیشن کر کے مریضوں کی قوتِ بصارت کو ٹھیک کیا جاتا ہے۔ اسے”بائیونک آئی“ کا نام دیا گیا ہے۔ بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ آنکھوں کی بینائی کمزور پڑ جاتی ہے اور وہ خلیے مرنے لگتے ہیں جو آنکھ کے اندر روشنی وصول کرتے ہیں اور پھر رفتہ رفتہ یہ علامات اندھے پن میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ یہ آنکھ ایسے مریضوں کی زندگیوں میں روشنی اور اجالوں کے رنگ بھرنے میں مددگار ثابت ہو گی۔
سوئیڈن کی لیبارٹریز میں مصنوعی طریقے سے تیار کردہ قرنیا یا انسانی آنکھوں کی جھلی سے دس افراد کی بینائی بحال کرنے میں بڑی مدد مل چکی ہے۔ یہ تو کچھ بھی نہیں جاوید چودھری کے مطابق ڈاکٹر یوشکی ساسائی نامی جاپانی سائنس دان سٹیم سیلز کی مدد سے مکمل انسانی آنکھ بنا کر اس کا کامیاب تجربہ بھی کر چکا ہے۔ یہ آنکھ پیدایشی نابینا افراد کو بھی لگا دی جائے تو وہ دیکھنے لگے گا۔ اس آنکھ کے بہت سے تجربات کیے جا چکے ہیں مگر ابھی اس کی عام دستیابی میں مزید وقت لگے گا۔ اس آنکھ کی قیمت دو کروڑ روپے ہے۔ آیندہ چند سالوں میں یہ آنکھیں عام دستیاب ہوں گی اور جن نابینا افراد کے پاس دو کروڑ روپے ہوں گے وہ اندھے نہیں رہیں گے۔ آئیے! پھر اپنے اس رحیم وکریم پروردگار کا شُکر ادا کریں کہ اس نے کس قدر قیمتی آنکھیں ہمیں مفت میں ہی عطا کر دی ہیں۔
آپ انسانی بالوں ہی کو لے لیجیے کہ اگر انسان گنجا ہو جائے تو بالوں کی پیوند کاری پر 60 ہزار روپے تک کے اخراجات ہو جاتے ہیں جب کہ دیگر ممالک میں اس سے بھی دس گنا زائد رقم خرچ ہو جاتی ہے۔
یقیناً آپ یہ سُن کر بھی حیران ہوں گے کہ فرانس کی 30 سالہ ایزا بیلا نامی خاتون کو اس کے پالتو کتّے نے چہرے پر کاٹ لیا، جس سے اس کا چہرہ بُری طرح مسخ ہو گیا۔ اُس کے ہونٹ، جبڑا، ٹھوڑی اور گال مکمل طور پر ضائع ہو گئے۔ وہ انتہائی مسخ شدہ چہرہ کسی کو دِکھانے کے قابل نہ تھی مگر طب کی دنیا میں پہلی بار اس کے چہرے کی جزوی پیوند کاری کی گئی اور وہ بالکل نارمل لوگوں کی طرح زندگی گزارنے لگی مگر اس کو کروڑوں کے اخراجات برداشت کرنا پڑے۔ اللہ ربّ العزّت نے انسان کے وجود اس قدر نفیس، عمدہ، مضبوط اور بے مثال بنایا ہے کہ اس کی قیمت کا احاطہ کرنا ناممکن ہے۔بیماری کے باعث اگر مصنوعی اعضا لگوا بھی لیے جائیں تب بھی وہ قدرتی اعضا کا نعم البدل ہرگز نہیں ہو سکتے۔ ایک شخص کو مصنوعی دل لگایا گیا مگر وہ صرف ایک سال تک زندہ رہ سکا۔
آئیے! ذرا سوچیں کہ ہمارے اعضا کس قدر قیمتی ہیں مگر اللہ نے ہمیں مفت میں عطا کر دیے ہیں۔ جو سوال میں آپ کی بیاضِ دل پر رقم کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ کیا ہمارے جسم کا کوئی ایک حصّہ بھی ایسا ہے جو اللہ کے علاوہ کسی اور نے تخلیق کیا ہو؟ اگر جواب نفی میں ہے تو پھر تخلیے میں بیٹھ کر اتنا ضرور سوچ لیجیے کہ جب تمام اعضا اللہ نے ہی دیے ہیں تو پھر انسان اس ایک اللہ کے دَر کو چھوڑ کسی غیر کے دَر کا بھکاری کیوں بنتا ہے؟ وہ اوروں کے سامنے دستِ سوال کیوں دراز کرتا ہے؟ آپ رات کے پچھلے پہر اٹھ کر اس ایک سوال پر غور ضرور کیجیے گا، شاید آپ کا یہ غوروفکر کرنا آپ کی اور میری اخروی زندگی میں کامیابی کا ذریعہ بن جائے۔

( انگارے۔۔۔حیات عبداللہ )

یہ بھی پڑھیں: آزادی ایک نعمت ہے اس کی قدر کریں