والدِ محترم عطاء اللہ ساجدؒ کے متعلق چند باتیں
دو قانون رائج ہیں دنیا میں، ایک قانون کہتا سو میں سے اڑھائی نکالیں تو پیسے کم ہوتے، رب کہتا پاک بھی ہوتے ہیں بڑھتے بھی ہیں۔
ایک محبت اور توجہ حاصل کرنے کیلئے ہم ملتے ملاتے ناجانے کیا کیا جتن کرتے ہیں، رب کہتا تم میرے ہو جاؤ میں فرشتوں، جنات اور انسانوں میں تمھاری محبت ڈال دوں گا۔
تو بات ہو رہی ہے، میرے پیارے، شفیق میرے مربی ابو جان عطاء اللہ ساجد شارح سنن ابن ماجہ مترجم کتب کثیرہ
نور اللہ مرقدہ وجعل قبرہ روضہ من ریاض الجنتہ اللھم ادخلہ الجنتہ مع الصديقين والشهداء و الابرار
ہم لوگوں سے اس لئے ملتے ملاتے ہیں۔ اور جنازے پڑھتے ہیں کہ دنیاداری کا تقاضا ہے۔
لوگ ہم سے راضی رہیں۔
تعلق بنانے میں بھی بہت سے دنیاداری کی وجوہات ہیں۔
ایک گوشہ نشین دنیا داری سے عاری شخص جسے شاید ہی چند افراد کے نام یاد ہوں جن سے وہ ملتے ملاتے تھے۔
اور ملنے کی وجہ صرف طالب علم ہونا ہوتی تھی۔
وہ خود کو طالب علم کہتے تھے۔
ان کی زندگی علم کی طلب میں ہی گزری۔
شادی پر بوسکی کا سوٹ لے کے دیا تو اس لئے نہیں پہنا کہ تشبیہات سے بچنا بھی فرض سمجھتے تھے۔
مجھے یقین ہے میرے اللہ نے انہیں جنت کے بہترین لباسوں میں سے لباس پہنایا ہو گا۔
چند سال قبل کسی زبان کے قول کا ترجمہ مجھے سناتے ہوئے بولے۔
جب تو آیا تو تیرے ہاتھ خالی تھے تو رو رہا تھا اور لوگ ہنس رہے تھے۔
کامیابی یہ ہے کہ تو جائے تو تو ہنس رہا ہو اور لوگ رو رہے ہوں۔
ان کی وفات کی خبر سن کے بہت سے افراد کو روتا دیکھا۔
ان کی روحانی اولادوں کے آنسو دیکھے۔
جنازہ اتنا ہوا کہ دو بار کروانا پڑا۔ ایک بار میں مجمع مسجد میں پورا نہیں آسکا تھا۔
2جولائی 1949 میں گرلز کالج برانڈرتھ روڈ لاہور میں پیدائش ہوئی!
یہ سکول ہندوستان سے ہجرت کے وقت کلیم کے وقت میری دادی امی کو ملا تھا جو انہوں نے اس لئے واپس کر دیا کہ ایک تو یہاں زمین داری ممکن نہیں دوسرا اتنی دیواروں میں اکیلی جان چھوٹے سے بچے کے ساتھ کیسے رہوں گی۔
بعد میں اس کی جگہ ایک کنال جی ٹی روڈ کامونکی اڈے میں الاٹ ہوئی۔
وہیں ہائی سکول تک تعلیم حاصل کی اور کالج کے لئے گورنمنٹ کالج گوجرانلہ روزانہ آیا کرتے تھے۔
بی اے مکمل کرنے کے بعد شادی ہو گئی اور وہیں جامعہ محمدیہ کنگنی والا میں درس نظامی پڑھنا شروع کیا۔
اساتذہ میں مولانا ابی البرکات رحمہ اللہ علیہ
مولانا عبد السلام بھٹوی رحمہ اللہ علیہ
اور دیگر بزرگ ہستیاں شامل تھیں۔ درس نظامی جامعہ سلفیہ فیصل آباد سے مکمل کیا اور وہیں ان کے آفس میں مبلغ تین سو ماہانہ پر چار ماہ نوکری کی۔ اس دوران کسی اخبار میں کالم بھی لکھتے تھے۔ ان میں سے کچھ کالم شائع بھی ہوئے لیکن خود سے وظیفہ مانگنا نہیں آیا۔
کسی قریبی دوست نے ان کا معاوضہ خود جا کے وصول کیا جو اس وقت چھ روپے بنتا تھا۔
بعد میں مدینہ یونیورسٹی کلیۃ القران میں داخلہ ہوا۔
تب ان کے ساتھیوں میں مولانا سعید احمد کلیروی۔
الشیخ خلیل الرحمان لکھوی ( حالیہ مدیر معہد القران کراچی)
اور دیگر جید علماء شامل تھے۔
خود بتاتے ہیں کہ میرے پیسوں کا سارا حساب کتاب شیخ خلیل صاحب ہی رکھتے تھے۔ دسترخوان اکٹھا تھا تو برتن دھونے کے فرائض ابو جی ادا کرتے تھے۔
کسی کام سے عار نہ تھا۔
ڈگری پوری ہونے کے بعد شیخ خلیل نے پوچھا کہ پروگرام کیا ہے؟
بولے جو اللہ کی مرضی۔ یا جدھر آپ جائیں وہیں میں چلا جاؤں گا۔
شیخ ظفر اللہ مرحوم مدیر جامعہ ابی بکر کراچی نے انٹرویو کے لئے مدینہ یونیورسٹی آنا تھا تو انٹرویو میں ابو شامل نہ ہو سکے۔ پر انہوں نے بغیر انٹرویو کے انہیں جامعہ ابی بکر میں جگہ دی۔
یہاں دلچسپ واقعہ ایسا ہے کہ اب ابو کی ملاقات شیخ ظفر اللہ سے ہوئی نہیں تھی۔
شیخ خلیل صاحب کی تاکید پر انہیں جامعہ میں رکھ لیا گیا تھا تو ابو ظفر اللہ صاحب سے چھپتے پھرتے تھے کہ اگر انہوں نے پوچھ لیا کہ بھائی تم ہو کون ؟؟ میرے مدرسے میں کیا کر رہے ہو۔
خیر اسباق پڑھاتے رہے اور ظفر اللہ صاحب سے چھپتے بھی رہے۔
تنخواہ سولہ سو مقرر ہوئی جو چند سال بعد تین ہزار کر دی گئی۔
بعد میں ظفر اللہ صاحب اور شیخ خلیل الرحمان کی تاکید پر سعودیہ سے مبعوث کروا دئے گئے۔
اٹھارہ سال جامعہ ابی بکر میں پچیس ممالک کے طلباء کو بلیک بورڈ وائٹ بورڈ اور مائیک میں پڑھایا۔
بعد میں والدین کے بڑھاپے میں ان کے لئے سب چھوڑ چھاڑ کے اپنا تبادلہ گوجرانوالہ میں کروا لیا۔
ایسی شاندار قسم کی یونیورسٹی لیول کا عربی میڈیم مدرسہ کہاں اور کہاں چٹائیوں پر بیٹھ کے ہر سال آٹھ لڑکوں کو بخاری پڑھا کے سند دینا۔
مسند کا لالچ تھا نہ عہدے کا۔
نہ پیسے کا لالچ تھا نہ شہرت تھا۔
جس نے جو کہا جتنا کہا اتنا پڑھا دیا۔
کوئی الجبرا پڑھنے آگیا تو شام تک اسے کلاس دیتے رہے۔ اگر کوئی بین المذاہب پڑھنے آگیا تو اسے ہی پڑھاتے شام کر دیتے تھے۔
طالب علم کوئی ہوتا تو اسے جی لگا کے پڑھاتے تھے۔ نہ کھانے کا ہوش ہوتا نہ پانی کا۔ اس دوران آذان ہوتی تو سب کچھ بند کر کے نماز کو لازمی پہنچتے تھے۔
اگر کسی بندے کو تحیۃ المسجد تک کا پابند دیکھا تو وہ ابو جی ہو دیکھا تھا۔
وقت کی پابندی ایسی تھی کہ اگر پیدل بھی جانا ہوتا تو گھڑی دیکھ کے نکلتے تھے۔
ساری زندگی سائکل تک نہیں چلایا نہ کوئی سواری استعمال کی
سنتوں کے شدید پابند تھے۔ کھانے میں پہل نہ کرتے اور کھانا کھاتے ہی خلال اور مسواک لازمی کرتے تھے۔ شاید اسی لئے ان کے دانت مکملُاور چمکدار تھے۔
جب کوئی مسئلہ پوچھتا تو پوری بات غور سے سنتے اور بعد میں سوال کرتے۔ “آپ کیا کہتے ہیں اس بارے؟”
جو بھی علم ہوتا تو وہ بتا دیتا تھا تو اگر تو بات درست کے قریب تر ہوتی پھر درست۔ کر دیتے تھے۔ اگر بلکل غلط ہوتی تو کہتے تھے میں تو علماء سے ایسے سنا اور پڑھا ہے۔
کبھی کھل کے حوصلہ شکنی والے انداز سے غلط نہیں کہتے تھے۔
ہمیشہ ان کے ہاتھ سے کسی کی مدد ہوتے ہی دیکھی تھی کبھی کسی سے مدد مانگتے نہیں دیکھا تھا۔
کراچی میں مولانا شفیق الرحمان فرخ رحمہ اللہ علیہ ان کے محبوب ترین شاگردوں میں سے تھے اورانہیں اپنا بڑا بیٹا ہی مانتے تھے۔ اور مولانا مرحوم کو بھی ہمیشہ اتنا ہی فرمانبردار پایا۔
تین سال پہلے وصیت کی کہ اگر میں فوت ہو جاؤں تو میرا جنازہ شفیق الرحمان فرخ پڑھائے۔
لیکن اللہ کی کرنی ایسی ہوئی کہ وہ پہلے وفات پا گئے۔
انعام الرحمن ساجد