اپنی غلطی کا اعتراف کرنے کا حوصلہ پیدا کرو
ؤ(جو کہ انسانی درجے میں اجتہادی خطا ہوتی ہے، نہ کہ گناہِ کبیرہ) پر فوراً اللہ کی طرف رجوع کیا اور معافی مانگی۔ یہ ان کی عبودیت، تواضع اور اللہ پر کامل انحصار کی علامت ہے۔ اپنی غلطی پر معافی نہ مانگنا ایک نفس پرستی، روحانی بیماری اور اخلاقی کمزوری کی علامت ہوتی ہے۔
1) تکبر (غرور):
وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللَّهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ(البقرۃ: 206)
“اور جب اسے کہا جائے کہ اللہ سے ڈرو، تو وہ گناہ پر ضد کرتے ہوئے گھمنڈ میں آجاتا ہے۔”
2) انا پرستی (Self-Ego): انسان کی خودی اور انا اسے تسلیم کرنے نہیں دیتی کہ وہ غلط تھا، کیونکہ اس سے اس کی خودساختہ عظمت ٹوٹتی ہے۔
3) شیطان کا بہکانا: شیطان انسان کو یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ معافی مانگنا کمزوری ہے، حالانکہ توبہ سب سے بڑی طاقت ہے۔
4) دل کی سختی (قسوة القلب):
ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُم مِّن بَعْدِ ذَٰلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ(البقرۃ: 74)
“پھر تمہارے دل سخت ہو گئے، پتھروں کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت۔”
5) دوسروں کے ردعمل کا خوف: بعض لوگ سوچتے ہیں کہ اگر وہ معافی مانگیں گے تو لوگ ان کا مذاق اڑائیں گے یا ان کی کمزوری سمجھیں گے۔ یہ وسوسہ شیطانی ہے، کیونکہ اللہ کے نزدیک عزت تواضع اور حق کے آگے جھکنے میں ہے۔
6) جہالت اور دین سے دوری: جب انسان کو توبہ، معافی، عاجزی اور حقوق العباد کی اہمیت کا شعور ہی نہ ہو، تو وہ غلطی پر معافی مانگنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا۔
7) ضد اور ہٹ دھرمی
انبیاء کی مثالیں چاہیے تو لیجیے
آدم علیہ السلام اور حضرت حواء علیہا السلام:
رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ (الأعراف: 23)
کوئی عذر پیش نہیں کیا ایک دوسرے پر الزام نہیں لگایا بس کہا اللہ غلطی ہوگئی ہے اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے ہیں معاف کردے.
یونس علیہ السلام:
لَا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ (الأنبياء: 87)
قوم کو چھوڑ کر جانے کے بعد مچھلی کے پیٹ میں اللہ کو پکارا اور اپنی خطا تسلیم کی۔ نبی ﷺ نے فرمایا: “یونس کی دعا کسی بھی غم و مصیبت میں مانگی جائے تو اللہ اسے ضرور قبول کرتا ہے۔”(ترمذی: 3505)
موسیٰ علیہ السلام:
رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي فَغَفَرَ لَهُ ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ(القصص: 16)
جب موسیٰ علیہ السلام سے غلطی سے ایک شخص قتل ہو گیا، تو انہوں نے فوراً اپنے نفس پر ظلم کا اعتراف کیا اور معافی مانگی۔
نوح علیہ السلام:
رَبِّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَسْأَلَكَ مَا لَيْسَ لِي بِهِ عِلْمٌ ۖ وَإِلَّا تَغْفِرْ لِي وَتَرْحَمْنِي أَكُن مِّنَ الْخَاسِرِينَ (هود: 47)
اپنے بیٹے کے لیے دعا کرنے پر جب اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا تو فوراً دعا سے رجوع کیا اور مغفرت طلب کی۔
سلیمان علیہ السلام:
رَبِّ اغْفِرْ لِي وَهَبْ لِي مُلْكًا لَّا يَنبَغِي لِأَحَدٍ مِّن بَعْدِي(ص: 35)
جب انہوں نے گھوڑوں کی محبت میں نماز سے تاخیر کی، تو اللہ کی طرف رجوع کر کے دعا و استغفار کی۔
ابراہیم علیہ السلام:
وَالَّذِي أَطْمَعُ أَن يَغْفِرَ لِي خَطِيئَتِي يَوْمَ الدِّينِ(الشعراء: 82)
ابراہیم علیہ السلام آخرت کے دن اللہ سے اپنی ممکنہ خطاؤں کی مغفرت کی امید رکھتے ہیں حالانکہ آپ اللہ کے خلیل تھے۔
داود علیہ السلام:
فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ(ص: 24)
جب ایک مقدمہ میں داود علیہ السلام نے فوراً ایک فریق کا فیصلہ سنے بغیر رائے دی تو اللہ نے آزمائش فرمائی — انہوں نے سجدہ کیا، توبہ کی، اور اللہ کی طرف رجوع کیا۔
میرا خیال ہے اتنی مثالیں کافی ہیں ویسے انبیاء کی دعائیں مفصل گفتگو و تحریر کی محتاج ہیں ان شاء اللہ
انبیاء علیہم السلام:
فطری لغزش پر فوراً اللہ کی طرف رجوع کرتے تھے۔
کبھی تکبر، تاویل یا تاخیر نہیں کرتے تھے۔
اللہ کی مغفرت اور رحمت پر مکمل یقین رکھتے تھے۔
ان کا یہ طرز عمل ہمیں تواضع، توبہ اور فوری رجوع کا سبق دیتا ہے۔
شاہ فیض الابرار صدیقی
یہ بھی پڑھیں: أھل السنة کا جماعت صحابہ کے حوالے سے انتہائی حساس ہونا