“العمل الخفي في ضوء الكتاب والسنة وأقوال السلف”
بقلم
محمد افضل اکرم
دار الفوز للنشر و التوزیع والبحث العلمي
═════ ❁✿❁ ══════
خطة البحث
1. مقدمہ:
باطنی عمل کی اہمیت اور عصرِ حاضر میں اس کی افادیت۔
2. باب اول:
خفیہ نیکی کا قرآنی تصور
– آیات مع ترجمہ و تشریح
– خفاء اور اخلاص کی فضیلت
3. باب دوم:
احادیثِ نبوی ﷺ کا اجمالی جائزہ
– خفیہ صدقہ، ریاکاری کا انجام
– قیامت میں اعمال کا وزن
4. باب سوم:
اقوالِ سلف کی روشنی میں خفیہ عمل
– ہر قول مع اصل عربی، ترجمہ، اور حوالہ
– عملی مثالیں و حکایات
. 5باب چہارم:
خفیہ اعمال اور ریاکاری کے درمیان فرق
– تعریف، علامات، علاج
– اخلاص کے درجات
6. باب پنجم:
معاصر مسائل اور تربیتی رہنمائی
– سوشل میڈیا پر نیکی کی تشہیر
– تنہائی میں عبادت کی مشق
– نیکی کو چھپانے کی عملی تدابیر
7. خاتمہ و نتائج
– خلاصہ، اہم نکات، اور دعوتِ عمل
═════ ❁✿❁ ══════
باب اول:
خفیہ نیکی (العمل الخفي) کا قرآنی تصور
تمہیدی کلمات:
قرآنِ مجید میں نیکی کے عمل کو صرف اللہ کی رضا کے لیے بجا لانے کی بار بار تاکید ملتی ہے۔ خاص طور پر خفیہ طور پر کیے جانے والے اعمال جنہیں ریا شہرت یا دنیاوی فائدے سے پاک رکھا جائے۔ انہیں اللہ تعالیٰ زیادہ محبوب رکھتا ہے اور ان کی جزا کئی گنا بڑھا کر عطا کرتا ہے۔ اس باب میں ہم قرآن مجید کی ان آیات کا مطالعہ کریں گے۔ جن میں خفیہ نیکی، اخلاص اور ریا سے اجتناب کی تعلیم دی گئی ہے۔
1. خفیہ صدقہ کی فضیلت
“إِن تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِيَ ۖ وَإِن تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ…” (سورۃ البقرۃ: 271)
اگر تم صدقات ظاہر کر کے دو تو یہ بھی اچھی بات ہے، لیکن اگر تم ان کو چھپا کر فقیروں کو دو، تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے۔
یہ آیت خفیہ عمل کی اصل روح کو بیان کرتی ہے۔ اگرچہ ظاہر صدقہ بھی نیکی ہے، لیکن اس میں ریا کا احتمال موجود ہوتا ہے۔ جب کہ چھپ کر دیا گیا صدقہ خالص اخلاص کا مظہر ہوتا ہے۔
2. ریاکاروں کی مذمت:
“فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ، الَّذِينَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ، الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ” (سورۃ الماعون: 4-6)
تو ہلاکت ہے ان نمازیوں کے لیے جو اپنی نماز سے غافل ہیں اور وہ جو دکھاوا کرتے ہیں۔
یہاں نماز جیسا عظیم عمل بھی اس وقت قابلِ مذمت بن جاتا ہے۔ جب وہ محض دکھاوے کے لیے ادا کیا جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ عمل کی اصل قدرو قیمت اس کے اخلاص میں مضمر ہے۔
3. اخلاص و تقویٰ کی بنیاد:
“لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَـٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ” (سورۃ الحج: 37)
نہ ان (قربانی کے جانوروں) کا گوشت اللہ کو پہنچتا ہے نہ ان کا خون بلکہ اسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔
تشریح: عمل کی ظاہری صورت اللہ کے ہاں نہیں دیکھی جاتی بلکہ دل کا تقویٰ اور نیت دیکھی جاتی ہے۔ یہی تقویٰ خفیہ عمل کا جوہر ہے۔
4. دلوں کی نیت پر گرفت
“قُلْ إِن تُخْفُوا مَا فِي صُدُورِكُمْ أَوْ تُبْدُوهُ يَعْلَمْهُ اللَّهُ” (سورۃ آل عمران: 29)
کہہ دو: جو کچھ تم اپنے سینوں میں چھپاؤ یا ظاہر کرو اللہ اسے جانتا ہے۔
یہ آیت دلی نیت کے علمِ الٰہی کو بیان کرتی ہے۔ لہٰذا خفیہ عمل ہو یا ظاہر اصل قیمت اس نیت کی ہ۔ جو دل میں چھپی ہوتی ہے۔
آخرت میں خفیہ عمل کی جزا
“فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ” (سورۃ الزلزال: 7)
پس جس نے ذرہ برابر بھی نیکی کی وہ اسے دیکھ لے گا۔
یہ آیت بتاتی ہے کہ ہر چھوٹی سے چھوٹی نیکی اگرچہ وہ خفیہ ہو اللہ کے ہاں ضائع نہیں جاتی۔ اخلاص کے ساتھ کیا گیا ہر عمل محفوظ ہے اور قیامت میں ظاہر کیا جائے گا۔
خلاصۂ باب:
قرآنِ کریم کی ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ:
– خفیہ نیکی، ظاہری نیکی سے افضل ہے۔
– ریاکاری عمل کو برباد کر دیتی ہے۔
– اللہ صرف دلوں کی نیت اور تقویٰ کو دیکھتا ہے۔
– خالص نیکی اگرچہ خفیہ ہو کبھی ضائع نہیں جاتی۔
═════ ❁✿❁ ══════
باب دوم:
احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں خفیہ نیکی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خفیہ نیکی (العمل الخفي) کو اخلاص کا معیار قرار دیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان ہی اعمال کو قبول فرمائے گا جو محض اس کی رضا کے لیے کیے گئے ہوں۔ چاہے وہ لوگوں کی نظروں سے بالکل اوجھل ہی کیوں نہ ہوں۔ اس باب میں ہم ان احادیثِ مبارکہ کو پیش کریں گے۔ جن میں اخلاص، ریاکاری سے بچاؤ اور خفیہ اعمال کی فضیلت کا بیان ہے۔
1. اخلاص کے بغیر عمل کا بطلان:
قال رسول الله ﷺ: “إنما الأعمال بالنيات، وإنما لكل امرئ ما نوى.” (متفق عليه – البخاري: 1، مسلم: 1907)
تمام اعمال نیتوں پر موقوف ہیں اور ہر شخص کو وہی کچھ ملے گا جس کی اس نے نیت کی۔
یہ حدیث اخلاص کی اساس ہے۔ خفیہ عمل اس وقت مقبول ہوتا ہے جب اس کی بنیاد نیت کی پاکیزگی ہو۔ نیت ہی عمل کو دنیا و آخرت میں قیمتی بناتی ہے۔
2. ریاکاروں کا انجام قیامت کے دن
قال رسول الله ﷺ: “إن أول الناس يُقضى يوم القيامة عليه… رجل تعلم العلم وعلّمه وقرأ القرآن… فيُقال له: كذبت، ولكنك تعلمت ليقال عالم، وقرأت ليقال قارئ، فقد قيل.” (رواه مسلم: 1905)
قیامت کے دن سب سے پہلے جس شخص کا فیصلہ کیا جائے گا… وہ شخص ہوگا جس نے علم سیکھا اور سکھایا، اور قرآن پڑھا… مگر کہا جائے گا: تو نے جھوٹ بولا، تو نے اس لیے علم حاصل کیا کہ تجھے عالم کہا جائے، اور قرآن اس لیے پڑھا کہ تجھے قاری کہا جائے — سو دنیا میں وہ کہہ دیا گیا۔
تشریح:
ریا کا انجام نہایت بھیانک ہے۔ اگر عمل خالص اللہ کے لیے نہ ہو، تو وہ عمل قیامت میں وبالِ جان بنے گا، چاہے وہ قرآن کی تلاوت جیسا عظیم عمل ہی کیوں نہ ہو۔
3. سات خوش نصیب افراد — جن میں ایک خفیہ صدقہ کرنے والا
قال رسول الله ﷺ: “سبعةٌ يظلّهم الله في ظلّه يوم لا ظلّ إلا ظلّه… ورجلٌ تصدّق بصدقةٍ فأخفاها، حتى لا تعلم شماله ما تنفق يمينه.” (متفق عليه – البخاري: 1423، مسلم: 1031)
سات قسم کے لوگ وہ ہیں جنہیں اللہ اپنے عرش کے سایہ میں رکھے گا… ان میں ایک وہ شخص ہے جو اس طرح خفیہ صدقہ کرتا ہے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہیں ہوتی کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا۔
خفیہ صدقہ کا یہ انداز اللہ کو اس قدر محبوب ہے کہ وہ بندہ قیامت کی شدید گرمی میں عرش عظیم کے سائے کا مستحق قرار پاتا ہے۔ یہ حدیث خفیہ نیکی کی عظمت پر ایک روشن دلیل ہے۔
4. چھپی ہوئی عبادت، اخلاص کی علامت:
عن معدان بن أبي طلحة قال: “لقيتُ ثوبانَ مولى رسولِ الله ﷺ فقلت: أخبرني بعملٍ يدخلني الله به الجنة… فقال: عليك بكثرة السجود، فإنك لا تسجد لله سجدة إلا رفعك الله بها درجة، وحطّ عنك بها خطيئة.” (رواه مسلم: 488)
معدان بن ابی طلحہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کے خادم ثوبانؓ سے عرض کیا: کوئی ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں داخل کر دے… انہوں نے فرمایا: کثرت سے سجدہ کرو، کیونکہ ہر سجدے کے بدلے اللہ تمہیں ایک درجہ بلند کرتا ہے اور ایک گناہ معاف کرتا ہے۔
سجدے تنہائی میں ہوں یا ظاہر، اگر وہ کثرت سے اور اخلاص کے ساتھ ہوں تو جنت کی ضمانت بنتے ہیں۔ خفیہ نمازیں، تہجد، اور ذکر کی صورتیں اسی میں داخل ہیں۔
5. افضل جہاد — نفس کے خلاف خفیہ عبادت
رسول الله ﷺ نے فرمایا:
“أفضل الجهاد أن يجاهد الرجل نفسه وهواه.” (رواه ابن النجار عن أبي ذر، وصححه الألباني في “صحيح الجامع”: 1099)
افضل ترین جہاد یہ ہے کہ انسان اپنے نفس اور خواہشات سے جہاد کرے۔
خفیہ نیکی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ انسان کا نفس اور دنیا کی طلب ہے۔ جو شخص ان رکاوٹوں کے خلاف جدوجہد کرتا ہے، وہ درحقیقت افضل مجاہد ہے۔
خلاصۂ باب:
– نبی کریم ﷺ کی تعلیمات میں خفیہ عمل کی خصوصی ترغیب دی گئی۔
– اخلاص کے بغیر عمل مردود ہے، اور ریاکاری قیامت میں سببِ ہلاکت۔
– جو بندہ اپنی نیکی کو چھپاتا ہے، وہ قیامت میں خاص مقام پاتا ہے۔
– خفیہ عبادات دل کی اصلاح اور روح کی طہارت کا ذریعہ بنتی ہیں۔
═════ ❁✿❁ ══════
باب سوم:
اقوالِ سلف اور اہلِ علم کی روشنی میں خفیہ نیکی
سلف صالحین — صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین، اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے والے اہلِ علم — کی زندگیوں کا مطالعہ کریں تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ان کا عمل ریاکاری سے پاک، باطنی خشوع سے معمور، اور خفیہ عبادات سے لبریز تھا۔ وہ اپنے اعمال کو اس طرح چھپاتے جیسے کوئی اپنے گناہ چھپاتا ہے۔ ان کے نزدیک اصل قیمت “قبولیت” کی تھی، نہ کہ “مشہوری” کی۔
آئیے، ان کے دل گداز اقوال و حالات کی روشنی میں خفیہ عمل کی حقیقت کو سمجھیں:
1. امام الشافعی رحمہ اللہ
قال الإمام الشافعي رحمه الله: “ينبغي للعالم أن يكون له خبيئة من عمل صالح فيما بينه وبين الله تعالى؛ فإن كل ما ظهر للناس من علم أو عمل قليل النفع في الآخرة.” (المجموع للنووي، المقدمة)
عالم کو لازم ہے کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی خفیہ نیکی ہو، کیونکہ جو کچھ لوگوں کو دکھایا جائے، اس کا فائدہ آخرت میں کم ہی ہوتا ہے۔
امام شافعیؒ نے اہلِ علم کے لیے لازم قرار دیا کہ وہ ظاہر علم کے ساتھ ایک خفیہ باطنی عبادت بھی رکھیں، جو دنیا کی نظروں سے مخفی ہو۔ یہ روحانی توازن علم کو نور بناتا ہے۔
2. الفضيل بن عياض رحمہ الله
قال الفضيل بن عياض رحمہ اللّٰہ نے فرمایا:
“ترك العمل من أجل الناس رياء، والعمل من أجل الناس شرك، والإخلاص أن يعافيك الله منهما.” (مدارج السالكين: 2/91)
لوگوں کے لیے عمل چھوڑنا ریا ہے، اور لوگوں کے لیے عمل کرنا شرک ہے، اور اخلاص یہ ہے کہ اللہ تجھے دونوں سے نجات دے دے۔
یہ قول اخلاص کے نازک معیار کو بیان کرتا ہے۔ خفیہ نیکی ہی وہ عمل ہے جس میں انسان ان دونوں فتنوں سے بچ کر خالص اللہ کے لیے عبادت کرتا ہے۔
3. مطرف بن عبد الله رحمہ الله
مطرف بن عبد الله نے فرمایا:
“كفى بالمرء إزراءً أن لا يكون له خبيئة بينه وبين الله.” (الزهد لابن المبارك، رقم: 123)
آدمی کے لیے یہ بہت بڑی کمزوری ہے کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی خفیہ نیکی نہ ہو۔
باطن میں نیکی کا نہ ہونا، بندے کی روحانی افلاس اور محرومی کی علامت ہے۔ سلف کی نگاہ میں ایسی نیکی ایمان کی علامت تھی۔
4. الحسن البصري رحمہ الله
قال الحسن البصري: “إن كان الرجل ليجلس في القوم فتجيئه العبرة فيردها، فإذا خشي أن تُغلبه قام.” (الزهد لأحمد، رقم: 2053)
ایک شخص مجلس میں بیٹھا ہوتا، آنکھوں میں آنسو آتے، تو وہ انہیں روکتا۔ اگر رونے پر قابو نہ رہتا تو وہ اُٹھ کر چلا جاتا — تاکہ اس کا رونا لوگوں کو نظر نہ آئے۔
یہ باطنی احتیاط اور اخلاص کی معراج ہے۔ سلف اپنے جذباتی اثرات کو بھی چھپانے کی کوشش کرتے تاکہ وہ محض اللہ کے لیے ہوں، نہ کہ لوگوں کی ستائش کے لیے۔
5. ابن المبارك رحمہ الله
عبد الله بن المبارك نے فرمایا:
“ما رأيت أحدًا أكثر سريرة من الفضيل بن عياض.” (سير أعلام النبلاء، 8/432)
میں نے فضیل بن عیاضؒ سے بڑھ کر خفیہ عمل کرنے والا کوئی نہیں دیکھا۔
یہ شہادت اس حقیقت کی دلیل ہے کہ جن کے ظاہری زہد و تقویٰ نے زمانے کو حیران کیا، ان کے باطن میں اس سے بھی زیادہ اخلاص و خفاء پوشیدہ تھا۔
6. الإمام أحمد بن حنبل رحمہ الله
كان الإمام أحمد يقول: “أحبّ لمن ليس عنده علمٌ أن يكون له عبادةٌ خفيّة.” (الآداب الشرعية لابن مفلح، 2/78)
جو علم نہیں رکھتا، میں اسے پسند کرتا ہوں کہ وہ خفیہ عبادت میں مشغول ہو۔
یہ تعلیم اس بات کی مظہر ہے کہ اللہ کی طرف تقرب کے لیے صرف علم نہیں، بلکہ خالص، خاموش اور خفیہ عبادت بھی بہت بڑا ذریعہ ہے۔
خلاصۂ باب:
– سلف صالحین کے نزدیک خفیہ نیکی ایمان کا خاصہ تھی۔
– وہ اپنی نیکی کو شہرت سے بچاتے اور اخلاص کا خاص اہتمام کرتے۔
– خفیہ اعمال کو وہ بندے کی روحانی زندگی کا ستون سمجھتے تھے۔
– ان کے اقوال، ہمارے لیے عملی نمونہ اور تربیتی نسخہ ہیں۔
═════ ❁✿❁ ══════
باب چہارم:
ریاکاری اور خفیہ نیکی — فرق، نشانیاں، اور علاج
تمہید:
اسلام میں عمل کا معیار “قبولیت عند اللہ” ہے، نہ کہ “ظاہری کامیابی” یا “لوگوں کی واہ واہ”۔ اس باب میں ہم ریاکاری (ریا) اور اخلاص (خفیہ نیکی) کے درمیان واضح فرق بیان کریں گے، اس کی علامات و اسباب کو سلف کی روشنی میں بیان کریں گے، اور ان کا علاج قرآن و حدیث کی بنیاد پر پیش کریں گے۔
1. ریاکاری کی حقیقت اور تعریف
قال الله تعالى “فويلٌ للمصلّين، الذين هم عن صلاتهم ساهون، الذين هم يُراؤون.” (الماعون: 4 – 6)
تباہی ہے ان نمازیوں کے لیے جو اپنی نماز میں غفلت کرتے ہیں، اور جو ریاکاری کرتے ہیں۔
ریا کی تعریف:
ریا وہ عمل ہے جو دکھاوے کے لیے کیا جائے، تاکہ لوگوں کی نظر میں نیک سمجھا جائے۔ اخلاص اس کے برخلاف وہ کیفیت ہے جہاں عمل صرف اللہ کی رضا کے لیے ہو۔
2. ریاکاری کی علامات:
(الف) عمل میں لوگوں کی موجودگی سے خوشی محسوس کرنا۔
امام حسن البصري رحمہ اللّٰہ نے فرمایا:
“الرياء أن يسرّك أن يطلع الناس على عملك.” (جامع العلوم والحكم، لابن رجب)
(ب) تنہائی میں سستی اور لوگوں کے سامنے جوش
(ج) نیکی کے بعد تعریف کی خواہش یا انتظار
(د) تنقید پر دینی کام سے دل برداشتہ ہونا
3. سلف صالحین کی تعلیمات میں ریاکاری سے بچاؤ
امام ابن المبارك رحمہ الله:
“ربّ عمل صغير تعظّمه النيّة، وربّ عمل كبير تصغّره النيّة.” (جامع العلوم والحكم، ابن رجب)
کبھی کوئی چھوٹا عمل نیت کی عظمت سے بڑا ہو جاتا ہے، اور کبھی کوئی بڑا عمل نیت کی خرابی سے چھوٹا بن جاتا ہے۔
4. ریاکاری کا علاج
(الف) نیت کی مسلسل تجدید:
امام ابن القيم الجوزیہ رحمہ اللّٰہ نے فرمایا:
“محاسبة النفس قبل العمل، وفي العمل، وبعد العمل من علامات الإخلاص.” (مدارج السالكين: 2/402)
(ب) عمل کو چھپانا، خصوصاً نفلی عبادات میں:
“إذا استطعت أن يكون لك خبيئة من عملٍ صالحٍ فافعل.” (وصیۃ الفضیل بن عیاض)
(ج) عمل میں اخلاص کی دعا:
“اللهم إني أعوذ بك أن أشرك بك شيئاً أعلمه، وأستغفرك لما لا أعلمه.” (مسند أحمد: 4/403، وصححه الألباني)
یا اللہ! میں اس شرک سے پناہ مانگتا ہوں جو میں جانتا ہوں، اور اس پر استغفار کرتا ہوں جو مجھے معلوم نہیں۔
5. خفیہ نیکی کی علامات:
– تنہائی میں عبادت کا ذوق
– نیکی کے بعد عاجزی
– عمل کے بعد خوف کہ “کیا قبول بھی ہوا یا نہیں؟”
– اپنی نیکی کا تذکرہ نہ کرنا
– شہرت یا تعظیم سے دلی اجتناب
6. قبولیت کی علامت:
ابن رجب رحمہ الله فرماتے ہیں:
“العمل المقبول هو ما زاد صاحبه تواضعًا وخشيةً وخشوعًا.” (لطائف المعارف: ص 202)
قبول شدہ عمل وہ ہے جو بندے میں عاجزی، خوف اور خشوع پیدا کرے۔
خلاصۂ باب:
– ریاکاری، اخلاص کے منافی ہے اور باعثِ ہلاکت۔
– خفیہ نیکی، ایمان و تقویٰ کا مظہر ہے۔
– سلف نے ریا سے بچنے کے لیے عمل کو چھپانے کا اہتمام کیا۔
– اخلاص کے لیے مسلسل محاسبہ، دعا، اور تقویٰ مطلوب ہے۔
═════ ❁✿❁ ══════
باب پنجم:
خفیہ نیکی کے فوائد و ثمرات — قرآن، حدیث، و فہمِ سلف کی روشنی میں
خفیہ نیکی محض ایک پوشیدہ عمل نہیں، بلکہ یہ روحانیت کا سرچشمہ، دل کا نور، اور اخلاص کا مظہر ہے۔ یہ بندے کو اللہ کے قریب کرتی ہے، اس کی دعا کو قبولیت عطا کرتی ہے، اور دنیا و آخرت میں رحمت، سکون اور خیر کا سبب بنتی ہے۔
آئیے، اس کے فوائد قرآن، احادیث، سلف صالحین کے اقوال اور عملی نمونوں کی روشنی میں سمجھتے ہیں۔
1. خفیہ نیکی سے اللہ کی محبت:
قال النبي صلى الله عليه وسلم: “إن الله يحبّ العبد التقيّ، النقيّ، الخفيّ.” (صحيح مسلم: 2965)
اللہ تعالیٰ اس بندے سے محبت فرماتا ہے جو پرہیزگار ہو، پاکیزہ ہو، اور (عمل میں) پوشیدہ ہو۔
اللہ کی محبت کسی عمل کے ظاہر پر نہیں، بلکہ اس کے باطن پر ہے، اور خفیہ نیکی اسی باطنی صفا کی علامت ہے۔
2. خفیہ نیکی قیامت کی آفتوں سے نجات کا ذریعہ:
رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
“سبعة يظلّهم الله في ظلّه يوم لا ظلّ إلا ظلّه…”
وذكر منهم: “ورجلٌ تصدّق بصدقةٍ فأخفاها حتى لا تعلمَ شمالُه ما تنفقُ يمينُه.”
(صحيح البخاري: 1423، مسلم: 1031)
سات قسم کے لوگ ہوں گے جنہیں اللہ قیامت کے دن اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گا… ان میں ایک وہ شخص ہے جو اتنی خفیہ صدقہ کرتا ہے کہ اس کا بایاں ہاتھ بھی نہ جانے کہ دایاں کیا خرچ کر رہا ہے۔
3. خفیہ نیکی سے دعاؤں کی قبولیت
حدیثِ غار(صحیح بخاری: 5974، صحیح مسلم: 2743) میں تین افراد ایک غار میں پھنس گئے۔ انہوں نے اپنے خفیہ اعمال کا واسطہ دے کر اللہ سے دعا کی، اور غار کا پتھر ہٹ گیا۔
خفیہ نیکی دعاؤں کی کنجی، مصیبتوں کی ڈھال اور رب کی رحمت کو متوجہ کرنے کا ذریعہ ہے۔
4. خفیہ نیکی، دل کا سکون اور اخلاص کا ثبوت
امام عبد الله بن المبارك رحمہ اللّٰہ نے فرمایا:
“من أراد وجه الله، أقبل الله عليه بوجهه، وجعل في قلبه نورًا وسكينةً.”(الزهد، لابن المبارك)
جو اللہ کا چہرہ (رضا) چاہتا ہے، اللہ بھی اس کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے، اور اس کے دل میں نور و سکون رکھ دیتا ہے۔
5. خفیہ نیکی، گناہوں کا کفارہ:
رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
“اتقوا النار ولو بشق تمرة.” (صحيح البخاري: 1410)
جہنم سے بچو، خواہ آدھی کھجور دے کر ہی کیوں نہ ہو۔
یہ معمولی سا عمل اگر خالص نیت اور خفیہ ہو تو اللہ کے ہاں بہت بڑا بن جاتا ہے۔
6. سلف صالحین کی گواہی:
أبو حازم سلمة بن دينار رحمہ الله نے فرمایا:
“وجَدتُ صلاحَ القلب في أربعة: في الخلوة، وقراءة القرآن، وخلو النية، وكتمان العمل.”
میں نے دل کی اصلاح چار چیزوں میں پائی: تنہائی، قرآن کی تلاوت، نیت کی صفائی، اور عمل کو چھپانا۔
7. خفیہ نیکی، شہرت سے بچاؤ کا ذریعہ
بشر بن الحارث نے فرمایا:
“ما أحبّ أن يعرفني الناس، حتى يقال: بشرٌ مجنون.” (سير أعلام النبلاء: 10/469)
میں یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ لوگ مجھے پہچانیں، یہاں تک کہ لوگ کہیں: بشر پاگل ہے!
خفیہ عمل انسان کو شہرت کے فتنوں سے محفوظ رکھتا ہے، جو اخلاص کو کھا جاتا ہے۔
خلاصۂ باب:
– خفیہ نیکی، اللہ کی محبت، دعا کی قبولیت، اور قیامت کے عذاب سے نجات کا ذریعہ ہے۔
– سلف نے اسے دل کا سکون، نیت کی صفائی، اور دین کی بنیاد قرار دیا۔
– اس کا اجر وہ ہے جو صرف اللہ جانتا ہے، اور جو عمل اللہ کے لیے ہو، وہ کبھی ضائع نہیں ہوتا۔
═════ ❁✿❁ ══════
باب ششم:
خفیہ نیکی کا جامع خلاصہ اور عملی رہنمائی
تمہید:
خفیہ نیکی کا موضوع اسلام کی روحانیت اور ایمان کی گہرائیوں کا آئینہ دار ہے۔ یہ محض ایک عمل نہیں، بلکہ ایک طرزِ زندگی ہے جو انسان کے باطن کو صاف کرتا ہے، اس کی نیتوں کو درست کرتا ہے، اور اس کی عبادات کو صرف اللہ کی رضا کے لیے مختص کرتا ہے۔ اس باب میں ہم اس موضوع کا جامع خلاصہ پیش کریں گے اور ساتھ ہی اس پر عمل کرنے کے لیے ضروری رہنمائی فراہم کریں گے۔
1. نیکیوں کو پوشیدہ رکھنے کا مقصد اور اہمیت:
نیکیوں کو پوشیدہ رکھنے کا مقصد صرف اور صرف اللہ کی رضا ہے۔ اس میں انسان اپنے اعمال کو چھپاتا ہے تاکہ اس کا عمل صرف اللہ کے لیے ہو، نہ کہ دنیا کی شہرت یا لوگوں کی نظر میں عزت کے لیے۔ اس عمل میں تین بنیادی اجزاء شامل ہیں:
– نیت کی صفائی:
عمل کا آغاز اللہ کی رضا سے ہو، نہ کہ کسی دنیاوی مقصد سے۔
– خلوص:
عمل کی انجام دہی میں کسی بھی قسم کی ریاکاری یا دکھاوا نہ ہو۔
– پوشیدگی:
عمل کی چھپائی اور اس کا اظہار نہ کرنا تاکہ اللہ کی رضا کے علاوہ کوئی دوسری غرض نہ ہو۔
2. عملی رہنمائی —
نیکیوں کو خفیہ و پوشیدہ رکھنے کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا
(الف) اپنے اعمال میں اخلاص کی تجدید کریں.
ہر عمل میں اللہ کی رضا کو مقدم رکھیں اور اس کے لیے دعا کریں کہ آپ کے اعمال میں کوئی ریاکاری یا دکھاوا نہ آئے۔ اگر کبھی دل میں کسی قسم کی شہرت یا تعریف کا خیال آئے، فوراً اللہ سے اس کی مغفرت طلب کریں۔
(ب) نفل عبادات کو چھپانے کی کوشش کریں:
جتنا ممکن ہو، اپنی نفل عبادات کو لوگوں سے چھپائیں۔ یہ عمل آپ کے دل کو اللہ کے قریب کرے گا اور آپ کی عبادات میں خلوص پیدا کرے گا۔سیدناابن عباس رضي الله عنه نے فرمایا:
“أفضل الأعمال ما أُخفيت.” (تفسير الطبري: 20/234)
سب سے افضل اعمال وہ ہیں جو چھپے ہوئے ہوں۔
(ج) زندگی میں توازن رکھیں.
اپنی زندگی میں توازن پیدا کریں؛ دنیا کی ضروریات کے ساتھ ساتھ اخروی عبادات پر بھی توجہ دیں۔ ہر عمل کو اللہ کی رضا کی نیت سے کریں، چاہے وہ علمی، جسمانی، یا مالی ہو۔
(د) کمزوریوں کا اعتراف کریں:
اگر کبھی دل میں نیت یا عمل میں خفیہ نیکی کا فقدان محسوس ہو، تو اللہ سے مدد طلب کریں اور اس کی توبہ کریں۔
3. خفیہ نیکی کو مضبوط رکھنے کے لیے تجاویز!
(الف) مسلسل محاسبہ کریں.
روزانہ اپنے اعمال کا محاسبہ کریں کہ آیا آپ کا عمل اللہ کے لیے ہے یا کسی اور مقصد کے لیے۔ محاسبہ نہ صرف عمل کو درست کرتا ہے، بلکہ دل کی صفائی کا باعث بھی بنتا ہے۔إمام الشافعي رحمہ اللّٰہ نے فرمایا:
“حاسبوا أنفسكم قبل أن تحاسبوا.” (مجموع الفتاوى: 2/348)
اپنے آپ کا محاسبہ کرو، اس سے پہلے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے۔
(ب) اللہ سے دعائیں کریں خفیہ نیکی کے لیے اللہ سے دعا کریں کہ وہ آپ کے دل میں خلوص پیدا کرے، اور آپ کے اعمال کو اپنی رضا کے مطابق قبول کرے۔
“اللهم اجعل أعمالنا خالصةً لوجهك الكريم.” (الجامع الصغير، رقم: 3037)
یا اللہ! ہمارے اعمال کو اپنی رضا کے لیے خالص بنا۔
(ج) اخلاص کی علامت: عاجزی اور انکساری:
اخلاص کا اصل ثمرہ انسان کی عاجزی اور انکساری میں نظر آتا ہے۔ جو شخص اللہ کے لیے عمل کرتا ہے، وہ ہر وقت اپنے عمل کو بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہے اور کبھی تکبر یا غرور کا شکار نہیں ہوتا۔
4. خفیہ نیکی کے ثمرات:
خفیہ نیکی کا اجر اللہ کے ہاں بہت بڑا ہے۔ جو شخص اپنے اعمال کو لوگوں سے چھپاتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گا۔ یہ عمل انسان کی روحانیت کو مضبوط کرتا ہے اور اللہ کی رضا کو پانے کا راستہ ہموار کرتا ہے۔
خلاصۂ باب:
– خفیہ نیکی کی اصل بنیاد اللہ کی رضا ہے، نہ کہ لوگوں کی نظر میں عزت یا شہرت۔
– اس پر عمل کرنے کے لیے نیت کی صفائی، اخلاص، اور پوشیدگی ضروری ہے۔
– روزانہ اپنے اعمال کا محاسبہ اور دعا کرنا ضروری ہے تاکہ اخلاص برقرار رہے۔
– خفیہ نیکی کے عملی فوائد میں اللہ کی محبت، دعاؤں کی قبولیت، اور قیامت میں نجات شامل ہیں۔
– سلف صالحین نے خفیہ نیکی کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا اور اس کی مثالیں ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
═════ ❁✿❁ ═════
اس تحقیقی مقالے کے ذریعے ہم نے خفیہ نیکی کی اہمیت، اس کی عملی رہنمائی، اور سلف صالحین کے اقوال کی روشنی میں اس کے فوائد کو تفصیل سے بیان کیا۔ اس عمل کو اپنی زندگی میں لا کر ہم اپنے اعمال کو اللہ کی رضا کے مطابق ڈھال سکتے ہیں اور اپنی آخرت کو بہتر بنا سکتے ہیں۔
اللہ ہمیں اپنے اعمال میں اخلاص کی توفیق دے اور ہماری عبادات کو اپنی رضا کے لیے قبول کرے۔ آمین۔