سوال (732)
میرے عزیز کی والدہ نے اپنی زندگی میں اپنی جائیداد دو سال قبل وراثت کے اصولوں پر اپنے بچوں میں تقسیم کر دی ہے، ان کے کل 7 بچے ہیں، 5 بیٹیاں ہیں ، 2 بیٹے ہیں ، تقسیم کا طریقہ کار یہ رکھا ہے کہ والدہ نے ایک حصہ اپنے پاس رکھا ہے ، دو دو حصے دو بیٹوں میں تقسیم کر دیے ہیں اور ایک ایک حصہ پانچ بیٹیوں میں تقسیم کر دیے ہیں یعنی کل دس حصے کیے ہیں ، اب ان کو دو سال بعد معلوم ہوا ہے کہ زندگی کے اندر تقسیم کرتے ہوئے وراثت کے اصول لاگو نہیں ہو سکتے ہیں ، زندگی میں عورت کا مال اولاد میں تقسیم کرنے کا کیا طریقہ کار ہے؟ اور اب جو غلط تقسیم ہو گئی ہے اس کا کیا سد باب ہے ؟
جواب
اگرچہ مسئلہ مختلف فیہ ہے ، لیکن راجح یہی ہے کہ زندگی میں بھی تقسیم کرتے ہوئے وراثت کے اصولوں کو ہی سامنے رکھا جائے گا ۔
فضیلۃ الباحث داؤد اسماعیل حفظہ اللہ
بصد احترام و معذرت کیا زندگی میں وراثت ہوتی ہے؟
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
نہیں ! زندگی میں کی جانے والی تقسیم عطیہ کہلاتی ہے ۔
فضیلۃ الباحث داؤد اسماعیل حفظہ اللہ
عطیہ اور وراثت میں بہت فرق ہے ، زندگی میں برابری پر تقسیم کریں ، اگر پہلے کردیا تو اسے ھدیہ سمجھتے ہوئے عدل کریں۔
فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ
عدل اور تساوی میں بھی بہت فرق ہے ، تقسیم میں عدل وہی ہے جو قرآن نے بیان کیا ہے
“للذکر مثل حظ الانثیین”
فضیلۃ الشیخ داؤد اسماعیل حفظہ اللہ
مالک کی موجودگی میں وراثت کیسے ؟
فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ
وراثت کی بات نہیں عطیہ کی ہو رہی ہے
فضیلۃ الباحث داؤد اسماعیل حفظہ اللہ
میں نے دلیل یہ دی تھی کی جو تقسیم اللہ نے بیان کی وہ عدل پر مبنی ہے ، اس متعلق پہلے بھی غالبا بات ہو چکی ہے ، عطیہ میں بھی وفق المیراث تقسیم کی جائے گی ۔
اولا : اقتداء بقسمة الله تعالى
ثانيا : قياس حال الحياة على حال الممات
ثالثا: هذا مذهب الصحابة (ما كانوا يقسمون إلا على كتاب الله)
رابعا: عطیہ میں بیٹی اور بیٹے کو برابر برابر دیا جائے گا اس پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے ۔
و هذا مذهب الحنابلة واختاره شيخ الإسلام وابن باز وابن عثيمين وغيرهم ۔
جو نعمان بن بشیر والی روایت سے استدلال کیا جاتا ہے اس کے جوابات بھی عرض کیے تھے ۔۔
فضیلۃ الباحث داؤد اسماعیل حفظہ اللہ
پاکستانی اکثر مشائخ ھبہ میں برابری کا فتویٰ دیتے ہیں۔
فضیلۃ الباحث محمد مرتضی ساجد حفظہ اللہ