عقائد کے ماند پڑتے شعلے

بریانی کیسے حرام ہوگئی بھئی؟
نذر ایک عبادت ہے جس میں بندہ یہ عہد کرتا ہے کہ میرا یہ کام ہوگیا تو میں یہ کام کروں گا یا بغیر کسی قید کے یہ عہد کرے کہ میں یہ کام کروں گا۔
اس کے عبادت ہونے کی دلیل یہ ہے کہ:
سورۃ الإنسان
آیت نمبر: 7

يُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَيَخَافُونَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيرًا

ترجمہ:
جو نذر پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی برائی چاروں طرف پھیل جانے والی ہے۔
چنانچہ جب اللہ تعالی نے جنت میں جانے والوں کی صفات میں یہ بات ذکر کی کہ وہ نذر کو پورا کرتے ہیں تو اللہ تعالی کی تقریر(منع نا کرنے یا اچھے الفاظ میں ذکر کرنے) سے یہ بات ثابت ہوئی کہ یہ عبادت ہے۔ چنانچہ جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ یہ عبادت ہے تو عبادت صرف اللہ کے لیے ہوتی ہے۔ اگر اس میں کسی اور کا حصہ شامل ہوگیا تو یہ شرک ہوجائے گا۔
اسی طرح حدیث ہے کہ:

حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ رُشَيْدٍ حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو قِلَابَةَ قَالَ حَدَّثَنِي ثَابِتُ بْنُ الضَّحَّاكِ قَالَ نَذَرَ رَجُلٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَةَ فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنِّي نَذَرْتُ أَنْ أَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَةَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلْ كَانَ فِيهَا وَثَنٌ مِنْ أَوْثَانِ الْجَاهِلِيَّةِ يُعْبَدُ قَالُوا لَا قَالَ هَلْ كَانَ فِيهَا عِيدٌ مِنْ أَعْيَادِهِمْ قَالُوا لَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْفِ بِنَذْرِكَ فَإِنَّهُ لَا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ وَلَا فِيمَا لَا يَمْلِكُ ابْنُ آدَمَ

ترجمہ : سیدنا ثابت بن ضحاک ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں ایک شخص نے نذر مانی کہ وہ مقام بوانہ پر ایک اونٹ ذبح کرے گا ۔ پھر وہ نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہا : بیشک میں نے بوانہ میں اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا ” کیا وہاں جاہلیت کا کوئی بت تھا جس کی عبادت ہوتی رہی ہو ؟ “ صحابہ نے کہا : نہیں ۔ آپ ﷺ نے پوچھا : کیا وہ جگہ ان کی میلہ گاہ تھی ؟ ” صحابہ نے کیا نہیں ۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” اپنی نذر پوری کر لے ‘ تحقیق ایسی نذر کی کوئی وفا نہیں جس میں اللہ کی نافرمانی ہو ‘ اور نہ اس کی جو انسان کی ملکیت میں نہ ہو ۔ “
سنن ابی داؤد حدیث نمبر: 3313
کتاب: قسم کھانے اور نذر کے احکام و مسائل
باب: نذر پوری کرنے کا حکم
حکم: صحیح
اس حدیث میں تو بات بالکل واضح ہو گئی کہ صحابی نے مان بھی نذر ہی رکھی تھی۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پورا کرنے کی شرائط بھی صرف دو ہی ذکر کی کہ ایک تو وہ جگہ ان کی عبادت گاہ(یعنی بت، قبر، درخت یا پتھر وغیرہ) نا ہو اور دوسری یہ کہ وہ دن ان کی عبادت یا عید یا اپنے خاص اعمال کرنے کے دن نا ہوں۔
اب آتے ہیں کہ بریانی/حلیم کیوں حرام ہوئی؟
ان دنوں میں جو بھی بریانی/حلیم بانٹے گا اس سے یہی گمان کیا جائے گا کہ یہ حسین رضی اللہ عنہ کے نام کی نذر دے رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ کہ ان دنوں میں دیا ہی یہ جاتا ہے۔ موحدین کو تو ان کا ایمان اور شریعت کی حدود( جن میں مشابهة المشرکین یعنی مشرکین سے مشابہت کا ڈر، تکثیر سواد المشرکین یعنی ان کی تعداد کے زیادہ دکھنے کا ڈر وغیرہ شامل ہیں) ان دنوں میں صدقہ خیرات کرنے سے باز رکھتی ہیں۔ لہذا اسے حسن ظن کہیں یا سوء ظن، ان دنوں میں جو بھی لا کر بریانی وغیرہ دے گا اس سے یہی خیال کیا جائے گا کہ یہ حسین علیہ السلام کے نام کی نذر ہے۔ یعنی اس بندے نے نذر کی عبادت میں کسی اور کو شریک کیا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے بھائی شرک کا مرتکب تو وہ ہوا ہے۔ بریانی مجھ پر کیوں حرام ہوگئی؟
اس کا جواب یہ کہ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں:
سورۃ البقرۃ
آیت نمبر: 173

إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ ۖ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ:
تم پر مردہ اور (بہا ہوا) خون اور سور کا گوشت اور ہر وہ چیز جس پر اللہ کے سوا دوسروں کا نام پکارا گیا ہو حرام ہے (١) پھر جو مجبور ہوجائے اور وہ حد سے بڑھنے والا اور زیادتی کرنے والا نہ ہو، اس پر ان کے کھانے میں کوئی پابندی نہیں، اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔
اسی طرح:
سورۃ الانعام
آیت نمبر: 145

قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ:
آپ کہہ دیجئے جو کچھ احکام بذریعہ وحی میرے پاس آئے ان میں تو میں کوئی حرام نہیں پاتا کسی کھانے والے کے لئے جو اس کو کھائے، مگر یہ کہ وہ مردار ہو یا کہ بہتا ہوا خون ہو یا خنزیر کا گوشت ہو، کیونکہ وہ بالکل ناپاک ہے یا جو شرک کا ذریعہ ہو کر غیر اللہ کے لئے نامزد کردیا گیا ہو (١) پھر جو شخص مجبور ہوجائے بشرطیکہ نہ تو طالب لذت ہو اور نہ تجاوز کرنے والا ہو تو واقع ہی آپ کا رب غفور و رحیم ہے۔
ایسی ہی آیت سورہ النحل میں ہے کہ:
سورۃ النحل
آیت نمبر: 115

إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ ۖ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ:
تم پر صرف مردار اور خون اور سور کا گوشت اور جس چیز پر اللہ کے سوا دوسرے کا نام پکارا جائے حرام ہیں۔ پھر اگر کوئی بے بس کردیا جائے نہ وہ خواہشمند ہو اور نہ حد سے گزر جانے والا ہو تو یقیناً اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔
ان آیات سے واضح ہوتا ہے کہ غیر اللہ کے نام پر کھلائی یا بانٹے جانے والی چیز حرام ہے کہ اس پر کسی دوسرے کا نام لیا گیا ہے یعنی اہل لغیر اللہ بہ میں شامل ہو جانے کی وجہ سے یہ چیز حرام ہو گئی۔ غیر اللہ کا نام لینے سے مراد کیا ہوتا ہے؟؟ مراد یہ ہوتا ہے کہ اس بندے، ولی، پیر، امام کا دل خوش ہو، اس کا قرب حاصل ہو، جس سے وہ مشکلوں میں مدد کرے یا انہیں دور کرے۔ اب اس بات کی یاد دہانی کے بعد دل پر ہاتھ رکھ کر ذرا موحد کہلوانے والے غور کریں تو شاید آنسو جاری ہوجائیں کہ توحید کے ساتھ اتنا بڑا کھیل صرف ایک بریانی کے نام پر ہو رہا ہے۔۔۔!
ان امور میں تساہل اس قدر بڑھتا جا رہا ہے کہ لطیفے سنائے جاتے ہیں کہ بریانی کا کوئی مسلک مذہب نہیں ہوتا۔ ٹھنڈا پانی ہی ہے۔ جہاں سے ملے پی لو وغیرہ۔ مگر کیا ہم نے یہ آیات نہیں پڑھ رکھیں جو حدود اللہ کی پامالی سے ڈراتی ہیں۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
سورۃ النور
آیت نمبر: 63

فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

ترجمہ:
سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انھیں ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آپڑے یا انھیں دردناک عذاب نہ پہنچے۔
اسی طرح نوح علیہ السلام کی زبانی اللہ تعالی بیان کرتے ہیں:
سورۃ نوح
آیت نمبر: 13

مَّا لَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارًا

ترجمہ:
تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کے وقار کا خیال نہیں رکھتے؟
لہذا مسلمان اور موحد کہلانے والوں کو ڈر جانا چاہیے کہ جو اللہ سارا سال ایک سے ایک بریانیاں اور حلیمیں کھلاتا ہے اس سے کچھ حیا کریں۔ اس سے کچھ شرم کریں۔ کہ اس کی نافرمانی کرنے والوں کی دی ہوئی حرام چیزیں صرف وقتی زبان کے مزے کے لیے منہ میں اتاریں۔
اللہ تعالی صحیح علم کے حصول اور پھر اس پر عمل کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین

تحریر برائے تذکیر: حافظ نصر اللہ جاويد

یہ بھی پڑھیں: سیدنا حسین کی اسلام کیلئے خدمات پوچھتے ہو؟