سوال (3135)

ایک بندے کو دو جڑواں بیٹے ہوئے ہیں، وہ ایک کٹا عقیقہ کرنا چاہ رہا ہے، کیا درست ہے؟

جواب

کتاب العیال لابن ابی الدنیا رحمہ اللہ میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کو کسی نے بتایا ہے کہ آپ کی بہن سیدہ اسماء رضی اللہ عنھا کو بیٹا ہوا ہے تو ہم بڑے خوش ہیں، ہم اونٹ ذبح کرنے لگے ہیں۔ “كنا ننحر جزورا” کے الفاظ ہیں، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے کہا ہے کہ سنت تو یہ ہے کہ اگر بچہ ہو تو دو بکرے اور اگر بچی ہے تو ایک بکرا ذبح کرنا ہے، سنت تو یہ ہے، آج کل علماء کرام یہ استدلال کرتے ہیں کہ ایک بچے کے عوض دو جانیں وہ خواہ بڑے جانور میں ہوں یا چھوٹے جانور میں ہوں، قرآن و سنت کے قریب قیاس یہی لگتا ہے کہ اگر دو جڑواں بچے ہیں تو ایک کے بدلے میں دو جانور ذبح کرنے ہیں، اب خواہ چھوٹے جانور ذبح کریں، یا بڑے جانور ذبح کریں، باقی ایک جانور درست نہیں ہوگا۔

فضیلۃ العالم عمر اثری حفظہ اللہ

ایک ذاتی واقعہ آپ نے یاد دلادیا ہے، میں بریلویوں کے درمیان میں بیٹھا ہوا ہوں، ہمارے ہاں اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کو ہدایت دی ہے، اس کو اللہ تعالیٰ نے بیٹی دی ہے، اس نے اپنے مولوی صاحب سے فتویٰ لیا ہے کہ کیا میں بڑا جانور عقیقے میں ذبح کر سکتا ہوں، تو اس نے کہا جی ہاں ذبح کر سکتے ہو، اس نے ایک بڑا بچھڑا لا کر باندھ دیا ہے، جب بات مجھ تک پہنچی تو میں نے کہا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حسن اور سیدنا حسین رضی اللہ عنھما کا جب عقیقہ کیا تھا تو چھوٹے جانور ذبح کیے تھے، اس لڑکے نے کہا ہے کہ میں اپنے مولوی صاحب سے دلیل پوچھوں گا، اس سے دلیل پوچھیں گئی تو اس نے کہا ہے کہ میں آپ کو دلیل دے دوں گا، آپ عقیقہ کرلیں، اس مولوی نے اپنے استاد اس طرح اس نے اپنے استاد سے پوچھا تھا، بالآخر دادا استاد نے کہا ہے کہ ان کو وہابی لگ گیا ہے، اس لڑکے نے مولوی صاحب کی خوب کھینچائی کی ہے کہ دلیل ہے تو دیں، میرا نام سے کہا ہے کہ اس نے تو حدیث نکال کر دیکھائی ہے۔
اگر شیخ سیدہ اسماء رضی اللہ عنھا والی بات کی کوئی دلیل ہے تو دے دیں ۔ اللہ تعالیٰ اس کو آپ کے حسنات میں شمار کریں گے۔

فضیلۃ الشیخ عبدالرزاق زاہد حفظہ اللہ

اگر تو انہیں شرعی مسئلہ کا علم نہیں ہے، تو دلائل کی روشنی میں بتا اور سمجھا دیا جائے اگر علم ہے تو تب ان پر لازم ہے کہ وہ عقیقہ میں صرف بھیڑ، بکری نر مادہ سے عقیقہ کریں گے، ان کے علاوہ کسی اور حلال جانور کا عقیقہ کرنا کتاب وسنت و تعامل صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین سے ثابت نہیں ہے اور بعض کا کسی بڑے جانور کو بطور عقیقہ کرنے کا موقف وعمل شاذ اور سنت کی مخالفت ہے۔
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کے بھانجے کے عقیقہ کے موقع پر اونٹ ذبح کیے جانے کا کہا گیا تو اپنے مبارک عہد کی عظیم عالمہ، محدثہ، فقیھہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا نے فرمایا معاذہم الله تعالى کی پناہ مانگتے ہیں بلکہ ہم تو وہی کریں گے جو رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
روایت کے الفاظ:

۔۔۔۔۔۔۔۔ﺳﻤﻌﺖ اﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻣﻠﻴﻜﺔ ﻳﻘﻮﻝ: ﻧﻔﺲ ﻟﻌﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺑﻜﺮ ﻏﻼﻡ ﻓﻘﻴﻞ ﻟﻌﺎﺋﺸﺔ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻬﺎ: ﻳﺎ ﺃﻡ اﻟﻤﺆﻣﻨﻴﻦ ﻋﻘﻲ ﻋﻠﻴﻪ , ﺃﻭ ﻗﺎﻝ: ﻋﻨﻪ ﺟﺰﻭﺭا ﻓﻘﺎﻟﺖ: ﻣﻌﺎﺫ اﻟﻠﻪ ﻭﻟﻜﻦ ﻣﺎ ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ﺷﺎﺗﺎﻥ ﻣﻜﺎﻓﺄﺗﺎﻥ [السنن الكبرى للبيهقى: 19280، شرح مشكل الآثار للطحاوى: 1042، مصنف عبد الرزاق: 7956]

اگر ان دو جانوروں کے علاوہ بھی جانور کرنے کی شریعت اسلامیہ میں گنجائش و اجازت ہوتی تو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کبھی بھی معاذ الله نہیں کہتیں ان کا معاذ الله کہنا اور اس پر موجود علماء تابعین وغیرہ کا نکیر نہ کرنا بتاتا ہے کہ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کا فرمانا دلیل وسنت کی بنیاد اور اس کی تائید و دفاع میں تھا لہذا عقیقہ میں کبش،شاۃ نر ہو یا مادہ سے ہی عقیقہ کیا جائے گا اور اتباع سنت کا یہی تقاضا ہے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

جی، یہ درست نہیں ہے۔

فضیلۃ الباحث نعمان خلیق حفظہ اللہ

عقیقہ کے لیے چھوٹا جانور مسنون ہے، بکرا، بکری، دنبہ، بھیڑ اور چھترا ہو۔

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ