سوال

عقیقہ کے گوشت کو کس طرح تقسیم کیا جائے گا؟ کیا سارا مساکین کو دیا جائے گا؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

عقیقہ کے گوشت کی تقسیم کے متعلق کوئی مخصوص شرعی قاعدہ مقرر نہیں کیا گیا۔ انسان کو اختیار ہے کہ وہ جس طرح مناسب سمجھے، تقسیم کر سکتا ہے۔ کچا گوشت بھی تقسیم کیا جاسکتا ہے اور پکاکر خود اور دوسروں کو کھلانا بھی درست ہے، البتہ بہتر یہ ہے کہ اسےبھی قربانی کے گوشت کی طرح تین حصوں میں تقسیم کیا جائے:

  1. غرباء و مساکین– تاکہ فقراء اور نادار افراد مستفید ہو سکیں۔
  2. رشتہ دار و احباب– صلہ رحمی اور تعلقات کی مضبوطی کے لیے۔
  3. اپنے اہل و عیال– گھر میں پکاکر کھانے کے لیے۔

لیکن یہ تقسیم ضروری نہیں بلکہ بہتر و مفید ہے، یعنی اگر کوئی شخص پورے گوشت کو فقراء میں تقسیم کر دے یا رشتے داروں کو دے دے، تو بھی جائز ہے۔

عقیقہ کے گوشت کے متعلق تمام علماء و فقہائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عقیقہ کا گوشت کسی مخصوص طریقے سے تقسیم کرنے کی کوئی قید نہیں ہے، بلکہ قربانی/ عام گوشت کی طرح جس طرح چاہیں استعمال اور تقسیم کر سکتے ہیں۔

لہذا عقیقہ کے گوشت کی کوئی مخصوص شرعی تقسیم نہیں ہے، البتہ مستحب یہ ہے کہ قربانی کے گوشت کی طرح تین حصے کیے جائیں: غرباء، رشتہ دار اور اپنے لیے۔ البتہ اگر کوئی شخص اسے کسی اور طریقے سے تقسیم کرے تو بھی جائز ہے، جیسے قربانی کے گوشت کی تقسیم میں بھی اختیار ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ