سوال
عقیقہ کے لیے بڑے جانور کو ذبح کیا جا سکتا ہے کہ دو حصے عقیقے کے ہو جائیں اور باقی صدقہ کر دیا جائیں۔ یا کہ دو جانیں ہی ذبح کرنی ہو نگی؟
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
عقیقہ عق سے مشتق ہے، جس کا لغوی معنی پھاڑنے کے ہیں، اور اصطلاح میں اس جانور کو کہا جاتا ہے جو نومولود کی پیدائش پر ساتویں دن اظہار نعمت پر ذبح کیا جاتا ہے۔ عقیقہ کرناسنت مؤکدہ ہے ۔اس حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
“كُلُّ غُلَامٍ مُرْتَهَنٌ بِعَقِيقَتِهِ، تُذْبَحُ عَنْهُ يَوْمَ السَّابِعِ، وَيُحْلَقُ رَأْسُهُ وَيُسَمَّى”. [سنن ابن ماجہ:3165]
’ہر لڑکا اپنے عقیقے کے بدلے گروی ہے، اس کی طرف سے ساتویں دن عقیقہ کیا جائے، اس کا سر مونڈا جائے، اور نام رکھا جائے‘۔
اور ایسے ہی ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے بیان کیا:
“من وُلِدَ لهُ ولدٌ فأحبَّ أن يَنسُكَ عنهُ فلينسُك”. [سنن ابی داؤد:2842]
’جس کے ہاں بچے کی ولادت ہو اور وہ اس کی طرف سےعقیقہ کرنا چاہتا ہے وہ عقیقہ کرے‘۔
عقیقہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہ ہے کہ لڑکے کےلیے دو چھوٹے جانور اور لڑکی کے لیے ایک چھوٹا جانور ذبح کیا جائے۔جیسےبھیڑ، دنبہ، بکری وغیرہ ہیں۔ جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نےفرمایا:
“أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” أَمَرَهُمْ عَنِ الْغُلَامِ شَاتَانِ مُكَافِئَتَانِ, وَعَنِ الْجَارِيَةِ شَاةٌ”. [سنن ترمذی:1513]
’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں ایک جیسی اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری عقیقہ کریں‘۔
اس سے ثابت ہوا کہ عقیقہ میں بڑا جانور ذبح نہیں کرنا چاہیے۔ہاں اگر کسی کا کنبہ بڑا ہو تو وہ دو چھوٹے جانور ذبح کر نے کے بعد اضافی جانوربھی کرسکتا ہے۔
لیکن عقیقہ کے طور پر بچے کے لیے دو چھوٹے جانور اور بچی کے لیے ایک چھوٹا جانور ذبح کرنا ہوگا۔محض بڑا جانور ذبح کرنا درست نہیں ہے۔
اورعقیقہ میں اشتراک کرنا بھی درست نہیں ہے، کیونکہ عقیقہ میں خون بہانے کا کہا گیا ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
“معَ الغُلامِ عقيقةٌ فأَهريقوا عنهُ دَمًا وأميطوا عنهُ الأذَى”. [سنن ترمذی:1515]
’لڑکے کی پیدائش پر عقیقہ ہے، لہذا جانور ذبح کرکےاس کی طرف سے خون بہاؤ اوراس سے گندگی دورکرو‘۔
تو جب محض عقیقے کےلیے خون بہانے کا کہا گيا ہے تو پھر اشتراک کیسے ہوسکتا ہے۔ اور جو احادیث عقیقہ میں اشتراک کے حوالے سے پیش کی جاتی ہیں وہ قابلِ استدلال نہیں ہیں۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ