آرٹیفیشل انٹیلیجنس کو سیکھنا اور استعمال کرنا کیوں ضروری ہے ؟
مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) یا AI سے متعارف ہونا محض ایک ٹیکنیکلی ضرورت نہیں، بلکہ یہ آج کے دور میں بقا (Survival) اور ارتقاء (Evolution) کا سوال ہے۔ اگر ہم انسانی تاریخ کا ایک محققانہ جائزہ لیں، تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہم اس وقت انسانیت کے سب سے بڑے اور فیصلہ کن موڑ پر کھڑے ہیں۔
1. چوتھے صنعتی انقلاب کا سنگِ بنیاد (The Foundation of 4th Industrial Revolution)
تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کوئی جنرل پرپز ٹیکنالوجی (جیسے کہ پہیہ، بھاپ کا انجن، یا بجلی) ایجاد ہوئی، اس نے دنیا کا نقشہ بدل دیا۔ AI کوئی معمولی ایپ یا سافٹ ویئر نہیں ہے؛ یہ نئی بجلی (New Electricity) ہے۔جس طرح بجلی کے بغیر آج کی زندگی کا تصور محال ہے، آنے والے چند سالوں میں AI کے بغیر معیشت، تعلیم اور صحت کا نظام چلانا ناممکن ہوگا۔ جو معاشرے یا افراد اس سے ناواقف رہیں گے، وہ اسی طرح پیچھے رہ جائیں گے جیسے صنعتی دور میں وہ قومیں رہ گئیں جنہوں نے مشین کو رد کر دیا تھا۔
2. انسانی صلاحیتوں کی توسیع (Augmentation of Human Intelligence)
روایتی طور پر انسان یہ سمجھتا رہا ہے کہ ذہانت صرف حیاتیاتی (Biological) ہوتی ہے۔ AI نے اس نظریے کو چیلنج کیا ہے۔
AI انسان کی جگہ لینے کے لیے نہیں، بلکہ انسان کی صلاحیت کو ضرب دینے (Multiply) کے لیے ہے۔ ایک ڈاکٹر جو AI کا استعمال جانتا ہے، وہ کینسر کی تشخیص ان ڈاکٹروں سے کئی گنا بہتر اور پہلے کر سکتا ہے جو اس سے ناواقف ہیں۔ لہٰذا، مقابلہ انسان بمقابلہ AI نہیں ہے، بلکہ AI استعمال کرنے والا انسان بمقابلہ عام انسان ہے۔
3. معاشی حاکمیت اور مستقبل کی لیڈرشپ (Economic Sovereignty)
موجودہ دور کی تحقیق یہ ثابت کرتی ہے کہ مستقبل کی طاقت کا انحصار تیل یا زمین پر نہیں، بلکہ ڈیٹا اور پروسیسنگ پر ہوگا۔
ڈیٹا بطور نیا اثاثہ
AI وہ انجن ہے جو خام ڈیٹا کو قیمتی فیصلوں میں تبدیل کرتا ہے۔ اگر آپ AI کو نہیں سمجھتے، تو آپ محض ایک صارف (Consumer) بن کر رہ جائیں گے، خالق (Creator) نہیں۔
ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹس کے مطابق، روایتی، تکراری کام ختم ہو رہے ہیں۔ صرف وہ لوگ اور ادارے محفوظ رہیں گے جو AI کے ساتھ ہم آہنگ (Adapt) ہو سکیں گے۔
4. اخلاقی اور سماجی شعور (Ethical & Social Awareness)
سب سے اہم اور فلسفیانہ نکتہ یہ ہے کہ AI ہماری سوچ، جمہوریت اور سچائی کے تصور کو متاثر کر رہا ہے۔
سوشل میڈیا پر ہم جو دیکھتے ہیں، وہ AI طے کرتا ہے۔ اگر ہم یہ نہیں جانتے کہ یہ سسٹم کیسے کام کرتے ہیں، تو ہم ڈیجیٹل غلامی کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں ہماری رائے (Opinion) ہماری اپنی نہیں، بلکہ الگورتھم کی بنائی ہوئی ہے۔لہذاAI سے متعارف ہونا اس لیے ضروری ہے تاکہ ہم ڈیپ فیکس (Deepfakes)، پرائیویسی کی خلاف ورزی اور الگورتھم کے تعصب (Bias) کو سمجھ سکیں اور اپنے دفاع کی تدبیر کر سکیں۔
بحیثیت مجموعی، مصنوعی ذہانت سے متعارف ہونا اب انتخاب(Choice) نہیں بلکہ ضرورت(Necessity) ہے۔ یہ ایک ایسی لہر ہے جسے روکا نہیں جا سکتا، لیکن اگر ہم اس کی حرکیات (Dynamics) کو سمجھ لیں، تو ہم اس لہر پر سواری کر سکتے ہیں۔
جہالت خوف پیدا کرتی ہے، اور علم تسخیر کا راستہ ہموار کرتا ہے۔ AI سے واقفیت ہی ہمیں مستقبل کا حاکم بنا سکتی ہے، ورنہ ہم ٹیکنالوجی کے محکوم بن کر رہ جائیں گے۔
ابرار شفیق




