کچھ لوگ اسرائیلی قبضے کے متعلق یہ مثال اپوزیشن کیطرف سے پیش کرتے ہیں کہ کیا ہوا اگر اس وقت اسرائیل نے قبضہ کرلیا ہے مسلمانوں نے بھی تو خیبر پر قبضہ کیا تھا اور یھودیوں کو وہاں سے نکالا تھا؟
پہلی بات تو یہ مسئلہ یہودیوں کا نہیں بلکہ صیہونیوں کا ہے کتنے ہی ایسے یہودی ربائی اور عام لوگ ہیں جو اسرائیل کو قابض ریاست مانتے ہیں اور یہ بات ان مسائل میں دلچسپی رکھنے والا ہر شخص بخوبی جانتا ہے۔
دوسری بات یہاں مسئلہ صرف مسلمانوں اور صیہونیوں کا نہیں بلکہ انسانی حقوق کا بھی ہے۔ جنگ ہوتی ہے اس میں فتح یا شکست پر دونوں طرف سے رضامندی بھی ہوتی ہے لیکن اس طرح نہیں جو انہوں نے طریقہ اپنایا ہے۔ یہ صرف دھوکہ دہی سے کیا ہے. دوسروں کی زمینیں لیکر پھر اس پر قبضہ کرکے دوسروں کو کہنا کہ تم یہاں سے بھاگ جاؤ یہ انسانی تاریخ بالخصوص جدید دور میں پہلی دفعہ ہی ہورہا ہے۔
آج اگر مسلمان سپین میں گھس جائیں اور کہیں کہ یہاں ہم سالوں رہتے رہے ہیں فلہذا یہ ہمارا علاقہ ہے اور انہیں وہاں سے بھگا دیں تو کون اسے جسٹیفائی کریگا؟
جب باقاعدہ جنگ ہوتی ہے تو سب کو پتہ ہوتا ہے کہ جیتنے والے کے ہم قیدی ہونگے اور جنگ کے اصول ہوتے ہیں جبکہ یہاں تو ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ اعلان کرکے فتح کرکے اور دھوکہ دہی کرکے قبضہ کرنے میں فرق ہوتا ہے۔ اس لیے ماضی کی فتوحات اور استعماری قبضوں میں بھی فرق ہے۔ ماضی کی فتوحات طاقت کے زور پر ہوتی تھیں جبکہ یہ قبضے دھوکے بازی اور چالاکی سے ہوتے ہیں۔
ذمہ دار فاتحین کی فتوحات کے بعد مقامی آبادیوں سے اپنائیت ہوتی تھی، اجنبیت مٹ جاتی تھی۔ ہم جانتے ہیں کہ مغل ہندوستان آکر ہندوستانی سماج میں ڈھل گئے۔ یہ وہ باتیں ہیں جو دنیا کے تاریخ سے واقف لوگ بخوبی جانتے ہیں۔ مگر نہ جانے کیوں لوگوں کو “استعمار” اور “فتوحات” میں فرق کرنے میں اتنی مشکل کیوں ہوتی ہے۔
رہی بات کہ جنگ تو ہے ہی نام دھوکہ دہی کا، یہ دھوکہ وہ نہیں جو اسرائیل نے اپنایا ہے۔ یہاں تو کوئی جنگ تھی ہی نہیں چہ جائیکہ وہاں دھوکہ دہی سے دشمن کو چونکایا جاتا بلکہ دھوکہ دہی سے قبضہ کرکے پھر وہاں کے مکینوں پر جنگ مسلط کی گئی وہ بھی اس لئیے تاکہ انکی مزید زمینیں ہڑپ کرلی جائیں۔
جب دشمن سے جنگ کا اعلان ہوجائے تو اس وقت دھوکہ دہی ہوتی ہے نہ کہ امن کے دنوں میں پھر تو دو دشمنوں کے درمیان کوئی اصول رہے ہی نا۔ نا امن معاہدہ چل سکے اور نہ لوگوں کی جان محفوظ رہ سکے۔
اسرائیل کے قبضے اور خیبر کو فتح کرنے کے درمیان فرق جاننے کیلئے صرف ایک یہی مثال سمجھ لیں کہ آج اگر مسلمان کسی مغربی ملک میں بڑی تعداد میں گھس جائیں۔ وہاں ایک ایک دہائی میں لاکھوں لوگ جائیں. اپنے امیر لوگوں کی مدد سے بڑے پیمانے پر وہاں املاک خریدیں۔ وہاں پر اپنی الگ فوج(paramilitary) بنائیں۔ آہستہ آہستہ اپنی آبادی کو وہاں کی سابقہ مقامی آبادی سے بڑھادیں اور پھر کہیں:
“اس زمین پر ہمارا حق بنتا ہے۔ اگر تمہیں اس حق کو تسلیم نہیں کرنا تو ملک کے دو حصّے کرو اور ہمیں ہمارا حصّہ دو۔”
فلسطینیوں کے ساتھ یہودیوں نے یہی کیا۔ برطانوی سامراج کے ہوتے ہوئے انہوں نے اپنی الگ افواج بنا رکھی تھیں۔ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت علاقے میں بڑے پیمانے پر ہجرتیں ہورہی تھیں۔ کسی ملک پر قبضے کی اتنی پرانی منصوبہ بندی چل رہی تھی جس کو استعمار کی حمایت حاصل تھی اور پھر آپ کہتے ہیں کہ ملک کے دو حصّے کردو اور یہودیوں کا اس پر حق بنتا ہے؟
یہ سارے کا سارا صیہونیت کا کیا دھرا ہے.اور اسکو جسٹیفائی اور نارملائیز کرنے کیلئے میڈیا پر بحثوں کو چھیڑا جاتا ہے.کتنے ہی عالمی اصولوں کو موجودہ جنگ میں روندا گیا مثال کے طور پر موجودہ دور میں ایک عالمی اصول ہے کہ جب کسی جگہ معصوم لوگوں کی جان کو خطرہ ہو وہاں حملہ نہیں کیا جائیگا. اور سب سے زیادہ اس اصول کو اسرائیل نے توڑا ہے غزہ پٹی میں ہر ایک کلومیٹر کے دائرے میں چار ہزار لوگ رہتے ہیں اور ان پر بم گرائے جارہے ہیں حماس تو انڈر گراؤنڈ ہے اسے ٹارگٹ کرنے کی بجائے معصوموں کے ہسپتال اور ریفیوجی کیمپ تک نہ چھوڑے گئے۔
الٹا کولیٹرل ڈیمج کہہ کر اسے جسٹیفائی کیا جارہا ہے یہی قابض صیہونیت کا وہ چہرہ ہے جسے آج کے دور میں امن کے فلٹر سے گزارا جارہا ہے تاکہ مغرب کا یہ گھناؤنا چہرہ وہاں کے لوگ بھی نہ دیکھ سکیں۔
عمیر رمضان