سوال (5978)

کسی بہن کا سوال آیا ہے، کہتی ہے: میں لے پالک ہوں مجھے بچپن سے پتہ ہے میرے ماں باپ کون ہیں میرے بابا یعنی میرے تایا میرا نام لکھوانے گئے تو وہاں انہوں نے بتایا ارم ولد فاروق لیکن وہ واقفیت والا تھا تب لکھ دیا اس نے مقصود جب میٹرک کا رزلٹ جانا تھا تب اساتذہ سے مشورہ کیا وہ کہتے اگر اب نام بدلوایا تو اب تو بڑا مسئلہ ہوجانا بہت پیسے لگنے ابو لوگ چونکہ نارمل حالات میں زندگی گزارتے تھے ضروریات کے لئے بمشکل پیسے ہوتے تھے اکیلے کمانے والے تھے بڑا بیٹا بھی پڑھتا تھا چھوٹا بھی تو بہت مشکل تھا اسلئے نام کاغذات پر بدلوایا نہیں جا سکا اب مجھے پتہ ہے میرے ماں باپ کوئی اور ہیں یعنی چچا لوگ میں انکو چاچو کہتی ماما کو آنٹی کہتی بہت دفعہ کوشش کی امی ابو کہنے کی لیکن نہیں کہا جا سکا نا ہی انکا اتنا لگاؤ میرے ساتھ.. اور میرے تایا یعنی جو پرورش کررہے وہ بہت چاہت کرتے سگی اولاد کی طرح دین دنیا دونوں کی تعلیم دلوائی اگر وہاں ہوتی تو دین سے دوری ہی ہونا تھی. اور آج سے چار پانچ سال پہلے میں اپنی اساتذہ کو اپنے بارے میں بتایا تو وہ کہتی تم تو بہت بڑی غلطی کررہی تایا کے گھررہ کر تم اپنے والدین کے پاس جاؤ وہ رات بہت اذیت سے کاٹی اگلے دن جامعہ جا کر اپنی باجی سے مشورہ کیا وہ ہماری فیملی کو جانتے ہیں. وہ کہتی اگر تم گئی تو نا یہ تمہاری عزت کریں گے کہ ہم نے پالا اتنا کیا یہ چلی گئی اور نا وہ کریں گے کیوں کہ تم ان میں پلی نہیں الگ رہی تو وہ تم سے صحیح محبت نہیں کریں گے.. تو جب تک شادی نہیں ہوتی خاموشی سے رہ لو… تو سوال یہ کہ ان سب باتوں کے بعد بھی کیا جواب ہے کہ کیا کیا جائے اور حق کس کا زیادہ بنتا مجھ پر؟

جواب

اس میں تین سوال ہیں۔
1۔ اصلی والد کو ابو کی بجائے دوسرے کو ابو کہنا
2۔ اصلی والد کی خدمت کی بجائے دوسرے کی خدمت کرنا
3۔ اصلی والد کی جگہ دوسرے کا نام ولدیت میں لکھنا
اس سلسلے میں ہمارے پاس مندرجہ ذیل شریعت میں احکام موجود ہیں۔

وَمَنْ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ أَوْ انْتَمَى إِلَى غَيْرِ مَوَالِيهِ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا”

جس شخص نے اپنے باپ کے علاوہ کی طرف نسبت کی یا جس غلام نے اپنے موالی (جہنوں نے اسے آزاد کیا) کے علاوہ نسبت کی اس پر اللہ تعالیٰ فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہو۔ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ اس سے نفلی اور فرضی کوئی عبادت قبول نہیں کرے گا۔ (صحیح مسلم)

من ادعى إلى غير ابيه، وهو يعلم انه غير ابيه، فالجنة عليه حرام

یعنی جس نے اپنے باپ کے علاوہ کسی کے بیٹا ہونا کا دعوی

کیا اور وہ جانتا بھی ہو کہ وہ اسکا پاب نہیں تو اس پہ جنت حرام ہے۔ (بخاری)

ليس من رجل ادعى لغير ابيه وهو يعلمه الا كفر بالله ومن ادعى قوما ليس له فيهم نسب فليتبوا مقعده من النار۔

جو شخص جانتے ہوئے بھی اپنے باپ کے علاوہ کسی کی طرف نسبت کرے اس نے اللہ کے ساتھ کفر کیا ہے اور جس نے کسی قوم میں سے ہونے کا دعویٰ کیا جس قوم میں اس کا نسب نہیں ہے وہ اپنا ٹھکانا آگ میں بنا لے۔(بخاری ومسلم)
اسی طرح زید کے بارے بھی قرآن میں حکم آ گیا تھا کہ اصلی باپ سے پکارنا زیادہ انصاف والا ہے۔
ان احکامات کو دیکھتے ہوئے اوپر تین سوالوں کے مندرجہ ذیل جواب ہو سکتے ہیں۔
1۔ پہلا کام جائز ہو سکتا ہے اگر لوگوں کو غلط فہمی نہ لگتی ہو کہ وہ نسبت کر کے باپ کہ رہی ہے کیونکہ کسی دوسرے کو باپ کہنا مسئلہ نہیں اسکی طرف نسبت کرتے ہوئے باپ کہنا گناہ ہے۔
2۔ دوسرے کام میں تو کوئی مسئلہ ہی نہیں زیدؓ اصلی باپ کے نام سے پکارنے والے حکم آنے کے بعد بھی رسول اللہ ﷺ کی ہی خدمت کرتے تھے۔
تیسرے سوال میں پہلے سوال کی شرائط پوری کرنے کے بعد اگرچہ دوسرے باپ کا نام مجبوری میں لکھا جا سکتا ہے اگر لوگوں کو نسبت کا شک نہ ہو لیکن بہتر ہر صورت یہی ہے کہ اصلی باپ کا نام لکھوایا جائے کیونکہ ایسا نہ کرنے سے شرعی اور قانونی احکامات میں بہت اختلاف آ سکتا ہے اور معاملہ خراب بھی ہو سکتا ہے۔
مثلا اگر کل کو یہ بیٹی اپنے تایا کے بیٹے سے شادی کرنا چاہئے تو شرعا جائز ہو گا مگر قانونا جرم بن جائے گا باقی اگر اس کی شادی ہو جاتی ہے اور آگے اولاد کو بھول جاتا ہے تو آگے رشتوں میں اس کے اصلی بھائیوں بہنوں کے ساتھ کوئی رشتہ غلط طے ہو سکتا ہے اور بہت سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
اسی طرح وراثت میں تو لازمی بگاڑ آئے گا جس کو درست کرنا لازم ہے یعنی یہ اپنے تایا کی وراثت میں سے کچھ نہیں لے سکتی ہیں سوائے وصیت کے۔ اور اپنے اصلی باپ کی وراثت لیں گی۔ اب اس کے لئے نقصان بھی ہو سکتا ہے کہ اصلی بہن بھائیوں نے قانونی لحاظ سے دینے سے انکار کر دیا اور تایا کی جائیداد یہ شرعی لحاظ سے نہیں لے سکتی ہیں تو اسکو نقصان بھی ہو سکتا ہے لیکن اگر یہ سب وہ قبول کر لیتی ہے اور سب رشتہ داروں کو اصلیت بھی بتا دیتی ہے تو سخت مجبوری میں یہ جائز کہا جا سکتا ہے۔ واللہ اعلم

فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ

ہمیشہ یہ سلسلہ رہا ہے، ایک دوسرے کے بچوں کو پالا جاتا ہے، متبنی اور لے پالک بنایا جا سکتا ہے، جو زندگی گزر گئی ہے، وہ صبر و شکر کے ساتھ گزر گئی ہے، اب ایسی نہ بنائیں، جس سے بگاڑ پیدا ہو، انسان نہ ادھر کا رہے، نہ ادھر کا رہے، بندے کو ہر ایک کا ادب کرنا چاہیے، جب بات واضح ہوگئی ہے، تو جو ادب و احترام والدین کا ہے، وہ پالنے والوں کا بھی رکھیں، اس میں میں سمجھتا ہوں کہ کوئی سخت بات نہیں ہونی چاہیے، اب جو ڈاکومنٹس بن گئے ہیں، وہ قانونی معاملات ہیں، پریشان نہ ہوں۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ