سوال (588)

“جو شخص عصر کے بعد سوئے اور اسکی عقل جاتی رہے تو وہ اپنے آپ کو ہی ملامت کرے” ۔ کیا یہ روایت صحیح ہے؟

جواب

اس بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب حدیث اس طرح ہے:

“من نام بعد العصر فاختلس عقله فلا يلومن إلا نفسه”.

«جو شخص عصر کے بعد سوئے اور اسکی عقل جاتی رہے تو وہ اپنے آپ کو ہی ملامت کرے»
یہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے، شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس کو [الضعیفة برقم 39] ذکر کے اس کی مختلف اسانید ذکر کر کے کلام کیا ہے۔ اور اس سلسلے میں امام لیث بن سعد کے حوالے ایک دلچسپ واقعہ بھی ذکر کیا ہے۔ کسی نے کہا کہ امام صاحب آپ عصر کے بعد سوتے ہیں کہ حالانکہ اس سے متعلق یہ حدیث وارد ہوئی ہے؟ تو امام صاحب نے جواب دیا:

لا أدع ما ينفعني بحديث ابن لهيعة عن عقيل!

یعنی جو چیز مجھے فائدہ دیتی ہے، میں اسے ایک ضعیف حدیث کی بنیاد پر نہیں چھوڑ سکتا!
شیخ البانی اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

“ولقد أعجبني جواب الليث هذا، فإنه يدل على فقه وعلم، ولا عجب، فهو من أئمة المسلمين، والفقهاء المعروفين، وإني لأعلم أن كثيرا من المشايخ اليوم يمتنعون من النوم بعد العصر، ولوكانوا بحاجة إليه، فإذا قيل له:الحديث فيه ضعيف، أجابك على الفور: يعمل بالحديث الضعيف في فضائل الأعمال!
فتأمل الفرق بين فقه السلف، وعلم الخلف! [الضعيفة1/ 113]

البتہ اس سلسلے میں خوَّاتِ بنِ جُبيرٍ رضی اللہ عنہ، جو کہ بدری صحابی ہیں، سے ایک قول مروی ہے جسے شیخ البانی وغیرہ اہل علم نے صحیح الاسناد قرار دیا ہے:

“نومُ أوَّلِ النَّهارِ خَرقٌ ، وأوسطُهُ خلقٌ ، وآخرُهُ حُمقٌ”.

’دن کے پہلے حصہ میں سونا خلاف فطرت ہے، درمیانی حصہ میں سونا مناسب اور آخری حصہ میں سونا بے وقوفی ہے‘۔
[مصنف ابن ابي شيبة:26677، صحيح الأدب المفرد:1242]
خلاصہ یہ ہے کہ بوقت ضرورت عصر کے بعد آرام کی ضرورت محسوس ہو تو حرج نہیں، لیکن بہتر یہ ہے کہ دن میں آرام کے لیے قیلولہ کا وقت منتخب کیا جائے۔ واللہ اعلم۔

فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ
فضیلۃ الباحث نعمان خلیق حفظہ اللہ