سوال (3178)

کیا اہل حدیث عصر کی نماز ظہر کے ٹائیم پہ پڑھتے ہیں، یہ کسی بریلوی نے کہا تھا، اس حوالے سے رہنمائی فرمائیں۔

جواب

دلائل کی رو سے ہمارے نزدیک عصر کا وقت سایہ کا ایک مثل کے برابر ہونے سے شروع ہوجاتا ہے، انسان کا سایہ اس کے برابر ہو جائے، اس میں چند لمحہ زوال کے بھی ڈال دیے جائیں تو عصر کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔

”عن ابن عباس رضی اللہ عنہما قال قال رسول اللہ ﷺ امنی جبرائیل عند البیت مرّتین فصلّٰی بی الظہر حین زالت الشمس وکانت قدر الشراک و صلی بی العصر حین صار ظل کل شئی مثلہ”۔ [رواہ ابوداؤد و الترمذی، مشکوٰۃ ص:۵۹ج۱]

”روایت ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میری جبرائیل نے امامت کرائی بیت اللہ کے پاس دو مرتبہ، تو انہوں نے نماز پڑھائی مجھ کو ظہر کی جب کہ سورج ڈھل گیا اور سایہ بقدرتسمہ جوتی کے ہو گیا تھا، اور نماز پڑھائی مجھ کو عصر کی جب سایہ ہر چیز کا اس کے برابر ہو گیا تھا”۔
یہ حدیث صریح دلالت کر تی ہے کہ عصر کی نماز کا وقت ایک مثل پر ہو جاتا ہے، جبرائیل علیہ السلام نے آپ کو عصر کی نماز ایک مثل ہو جانے پر پڑھائی۔ قرآن مجید میں جہاں اور نمازوں کی محافظت کی تاکید فرمائی ہے، وہاں عصر کی نماز کی خصوصیت سے تاکید فرمائی ہے۔

قال اللہ تعالیٰ: ”حافظوا علی الصلوٰت والصلوٰۃ الوسطیٰ” [البقرۃ:۲۳۸]

”مسلمانو! تمام نمازوں کی محافظت کرو اور خاص کر نماز وسطیٰ( عصر )کی”۔
ظاہر ہے کہ نمازوں کی حفاظت ان کے اوقات کی بھی محافظت ہے۔چنانچہ آنحضرت ﷺ عشاء کی نماز کے علاوہ اور سب نماز پنجگانہ اول وقت پر پڑھتے تھے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

احناف کو بتانا چاہیے کہ ان کے اپنے آئمہ عصر، ظہر کے وقت میں پڑھتے ہیں، کیونکہ جو اھل الحدیث کا موقف ہے وہی صاحبین (محمد اور قاضی یوسف )کا ہے اس باب میں، دیکھیے ھدایہ

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ