سوال (2565)
قران کریم میں شکاری کتے کی سیکھنے کی صلاحیت کو اللہ کی نعمت قرار دیا گیا ہے، اور اس کا شکار کردہ جانور کھانا حلال کیا گیا بشرطیکہ اس کو اللہ کا نام لے کر چھوڑا گیا ہو۔ اصحاب کہف کا ذکر جہاں جہاں آیا ان کے کتے کو بھی گنتی میں ان کے ساتھ شمار کیا گیا “ثلاثۃ رابعھم کلبھم خمسۃ سادسھم کلبھم، سبعۃ و ثامنھم کلبھم” اور اس کتے کی اس ادا کا خاص طور پر ذکر کیا گیا کہ وہ رکھوالی کے لئے غار کے اندر رستے پر اپنا منہ اپنی اگلی ٹانگوں پر رکھے آرام کر رہا ہے۔ “وکلبھم باسط ذراعیہ بالوصید”۔ نہ کتا رکھنے والوں کی مذمت کی گئی ہے اور نہ کتے کے بارے میں کہا گیا کہ کتے کی وجہ سے اللہ کی رحمت غار کے اندر داخل نہیں ہوئی۔ پھر پتہ نہیں کہاں سے اچانک راویوں نے کتوں کے خلاف باقاعدہ جنگ چھیڑ دی ہے ، جس طرح مارشل لاء دور میں سیاستدانوں کے خلاف مہم چلائی جاتی ہے۔
قاری حنیف ڈار
معزز شیوخ کرام اس کو کیا مسکت جواب دیا جائے؟
جواب
یاد رکھیں کہ سابقہ شریعتوں کے احکام ہم پر لاگو نہیں ہوتے ہیں ، الا یہ کہ ان کی وضاحت کردی گئی ہو کہ یہ چیز لاگو ہوگی، “بالوصید” کا ترجمہ “غار کے اندر” کرنا یہ بھی محل نظر ہے، اگر ایسا کچھ کہہ دیا جائے کہ قرآن میں کچھ ایسا نہیں ہے، حدیثوں میں ہے تو بات وہی ہوجائےگی کہ اس طرح کے لوگوں کے ساتھ حجت حدیث پر بات کی جا سکتی ہے، بجائے اس کے کہ مسائل پر گفتگو کی جائے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ