سوال (2026)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں:
“كَانَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ تَصُومُهُ قُرَيْشٌ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُهُ، فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ صَامَهُ، وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ، فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ تَرَكَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَمَنْ شَاءَ صَامَهُ، وَمَنْ شَاءَ تَرَكَهُ” [صحيح البخاري : 2002]
عاشوراء کے دن زمانہ جاہلیت میں قریش روزہ رکھا کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی رکھتے۔ پھر جب آپ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے یہاں بھی عاشورہ کے دن روزہ رکھا اور اس کا لوگوں کو بھی حکم دیا۔ لیکن رمضان کی فرضیت کے بعد آپ نے اس کو چھوڑ دیا اور فرمایا کہ اب جس کا جی چاہے اس دن روزہ رکھے اور جس کا چاہے نہ رکھے۔
مشائخ کرام اس حدیث کی وضاحت کریں ؟
جواب
شریعت اسلامیہ میں عاشوراء کا روزہ تشریع کے چار مراحل سے گزرا ہے.
(1) : پہلا مرحلہ :
اس مرحلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عاشوراء کا روزہ ایک خاص نفلی روزے کی حیثیت سے رکھتے تھے۔
(2) : دوسرا مرحلہ :
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے عاشوراء کا روزہ سب پر حکما فرض قرار دے دیا ہے۔
(3) : تیسرا مرحلہ :
سنہ دو ہجری میں جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی فرضیت ساقط کردی، اور دوبارہ درجہ استحباب میں کردیا اور لوگوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا یعنی جو رکھنا چاہے رکھ لے اور جو نہ چاہے، نہ رکھے.
یہ تینوں مراحل صحیح البخاری کی روایت جو سوال میں ذکر کی گئی ہے ، اس سے ثابت ہوتے ہیں۔
(4) : چوتھا مرحلہ :
وفات سے چند ماہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کے روزے کے بارے میں ایک اور عزم کا اظہار فرمایا:
ابوغطفان بن طریف کہتے ہیں:
سَمِعْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: “حِينَ صَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّهُ يَوْمٌ تُعَظِّمُهُ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَإِذَا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ إِنْ شَاءَ اللهُ صُمْنَا الْيَوْمَ التَّاسِعَ» قَالَ: فَلَمْ يَأْتِ الْعَامُ الْمُقْبِلُ، حَتَّى تُوُفِّيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ” [صحیح مسلم 1134]
«میں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا، فرما رہے تھے: جب رسول اللہ ﷺ نے یوم عاشورہ کا روزہ رکھا اور اس کا روزہ رکھنے کا حکم دیا تو صحابہ نے عرض کی: اللہ کے رسول ! یہی دن ہے جس کی یہود و نصاریٰ تعظیم کرتے ہیں۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ جب آئندہ سال ہو گا، اگر اللہ نے چاہا تو ہم نویں دن کا روزہ رکھیں گے‘‘۔
کہا: اس کے بعد آئندہ سال نہیں آیا تھا کہ رسول اللہ ﷺ وفات پا گئے»
جمہور علماء، امام مالک، شافعی، احمد اور دیگر فقہا و محدثین کے نزدیک اس حدیث سے مراد یہ ہے کہ میں آئندہ سال زندہ رہا تو دس کے ساتھ ساتھ نو تاریخ کو بھی روزہ رکھوں گا. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں دس کی وضاحت اس لیے نہیں کی وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زندگی بھر کے معمول سے انڈر سٹڈ تھی. دلائل کے لحاظ سے یہی موقف راجح ہے اور اظہر من الشمس ہے: وہ تمام احادیث جن میں اس روزے کی فضیلت اور تاریخ بیان ہوئی ہے، سب میں عاشوراء ہی کا لفظ مستعمل ہے اور عاشوراء کا معنی دس تاریخ ہے۔
فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ