سوال (2026)

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں:

“كَانَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ تَصُومُهُ قُرَيْشٌ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ صَامَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ تَرَكَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ شَاءَ صَامَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ شَاءَ تَرَكَهُ” [صحيح البخاري : 2002]

عاشوراء کے دن زمانہ جاہلیت میں قریش روزہ رکھا کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی رکھتے۔ پھر جب آپ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے یہاں بھی عاشورہ کے دن روزہ رکھا اور اس کا لوگوں کو بھی حکم دیا۔ لیکن رمضان کی فرضیت کے بعد آپ نے اس کو چھوڑ دیا اور فرمایا کہ اب جس کا جی چاہے اس دن روزہ رکھے اور جس کا چاہے نہ رکھے۔
مشائخ کرام اس حدیث کی وضاحت کریں؟

جواب

شریعت اسلامیہ میں عاشوراء کا روزہ تشریع کے چار مراحل سے گزرا ہے.
(1) پہلا مرحلہ:
اس مرحلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عاشوراء کا روزہ ایک خاص نفلی روزے کی حیثیت سے رکھتے تھے۔
(2) دوسرا مرحلہ:
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے عاشوراء کا روزہ سب پر حکما فرض قرار دے دیا ہے۔
(3) تیسرا مرحلہ:
سنہ دو ہجری میں جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی فرضیت ساقط کردی، اور دوبارہ درجہ استحباب میں کردیا اور لوگوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا یعنی جو رکھنا چاہے رکھ لے اور جو نہ چاہے، نہ رکھے.
یہ تینوں مراحل صحیح البخاری کی روایت جو سوال میں ذکر کی گئی ہے، اس سے ثابت ہوتے ہیں۔
(4) چوتھا مرحلہ:
وفات سے چند ماہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کے روزے کے بارے میں ایک اور عزم کا اظہار فرمایا:
ابوغطفان بن طریف کہتے ہیں:

سَمِعْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: “حِينَ صَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّهُ يَوْمٌ تُعَظِّمُهُ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَإِذَا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ إِنْ شَاءَ اللهُ صُمْنَا الْيَوْمَ التَّاسِعَ» قَالَ: فَلَمْ يَأْتِ الْعَامُ الْمُقْبِلُ، حَتَّى تُوُفِّيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ” [صحیح مسلم 1134]

«میں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا، فرما رہے تھے: جب رسول اللہ ﷺ نے یوم عاشورہ کا روزہ رکھا اور اس کا روزہ رکھنے کا حکم دیا تو صحابہ نے عرض کی: اللہ کے رسول ! یہی دن ہے جس کی یہود و نصاریٰ تعظیم کرتے ہیں۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ جب آئندہ سال ہو گا، اگر اللہ نے چاہا تو ہم نویں دن کا روزہ رکھیں گے‘‘۔
کہا: اس کے بعد آئندہ سال نہیں آیا تھا کہ رسول اللہ ﷺ وفات پا گئے»
جمہور علماء، امام مالک، شافعی، احمد اور دیگر فقہا و محدثین کے نزدیک اس حدیث سے مراد یہ ہے کہ میں آئندہ سال زندہ رہا تو دس کے ساتھ ساتھ نو تاریخ کو بھی روزہ رکھوں گا. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں دس کی وضاحت اس لیے نہیں کی وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زندگی بھر کے معمول سے انڈر سٹڈ تھی. دلائل کے لحاظ سے یہی موقف راجح ہے اور اظہر من الشمس ہے: وہ تمام احادیث جن میں اس روزے کی فضیلت اور تاریخ بیان ہوئی ہے، سب میں عاشوراء ہی کا لفظ مستعمل ہے اور عاشوراء کا معنی دس تاریخ ہے۔

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ

سوال: محرم کا روزہ نو اور دس کا رکھنا چاہیے یا صرف نو کا رکھنا چاہیے؟
جواب: یہ مسئلے ہر سال معرکۃ الآرا بن جاتا ہے، عاشورہ عشر سے نکلا ہے، العاشر دس محرم کو کہتے ہیں، فقہاء کا اس پر اتفاق ہے، فضیلت والی بحث عاشورہ کی ہے، یہودیوں کی مخالفت کرنی ہے تو اس کے ساتھ نو یا گیارہ جوڑ لیا جائے، نو یا گیارہ دونوں جوڑ دیں، ساری صورتیں موجود ہیں، بلا دلیل یوم التاسع کی بحث لے کر بیٹھ جانا کہ نو ہی کا روزہ ہے، نو ہی کا روزہ ہے، ساری خرابی ہی سے ہی پیدا ہوتی ہے، ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی بحث دیکھ لیں، اس طرح شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کی بحث دیکھ لیں، عطاء اللہ حنیف بھوجیانی اور شیخ صلاح دین یوسف رحمہ کا بحث دیکھ لیں، اس میں یہ ہے کہ نو، دس اور گیارہ کو روزہ رکھ لیں، اس کے بعد نو اور دس رکھ لیں، دس یا گیارہ کا رکھ لیں، یا صرف دس تاریخ کم سے کم رکھ لی۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سوال: محرم روزہ کس دن کا رکھے؟ ہر سال یہ مسلہ چلتا ہے کہ 9 کا ہی رکھا جائے، کچھ 9 اور 10 دونوں کا کہتے ہیں، کنفرم کس دن کا روزہ رکھا جاۓ جس کے دلاٸل مضبوط ہو۔

جواب: یہ مسئلے ہر سال معرکہ الآرا بن جاتا ہے، عاشورہ عشر سے نکلا ہے، العاشر دس محرم کو کہتے ہیں، فقہاء کا اس پر اتفاق ہے، فضیلت والی بحث عاشورہ کی ہے، یہودیوں کی مخالفت کرنی ہے تو اس کے ساتھ نو یا گیارہ جوڑ لیا جائے، نو یا گیارہ دونوں جوڑ دیں، ساری صورتیں موجود ہیں، بلا دلیل یوم التاسع کی بحث لے کر بیٹھ جانا کہ نو ہی کا روزہ ہے، نو ہی کا روزہ ہے، ساری خرابی ہی سے ہی پیدا ہوتی ہے، ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی بحث دیکھ لیں، اس طرح شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کی بحث دیکھ لیں، عطاء اللہ حنیف بھوجیانی اور شیخ صلاح دین یوسف رحمہ کا بحث دیکھ لیں، اس میں یہ ہے کہ نو، دس اور گیارہ کو روزہ رکھ لیں، اس کے بعد نو اور دس رکھ لیں، دس یا گیارہ کا رکھ لیں، یا صرف دس تاریخ کم سے کم رکھ لیں۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سوال: کیا یوم عاشورہ اس کا روزہ نو تاریخ کو رکھنا چاہیے یا 10 تاریخ کو یا نو اور 10 دونوں کا اس کی وضاحت فرما دیں۔ جزاک اللہ خیرا

جواب: عاشورہ کے روزہ کی فضیلت ہے کہ:

اس سے (پچھلے) ایک سال کے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔ [مسلم: 2746]

دس کے ساتھ نو محرم کا روزہ بھی رکھیں گے۔ [مسلم: 2666]

أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ فِي يَوْمِ عَاشُورَاءَ: خَالِفُوا الْيَهُودَ، وَصومُوا التَّاسِعَ وَالعَاشِرَ، [مصنف عبد الرزاق: 8086]

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔

یہودیوں کی مخالفت کرو

نو اور دس محرم کا روزہ رکھو۔ [المصنف – عبد الرزاق –  التأصيل الثانية ٥/‏٣١] سندہ،صحیح

اگر کسی وجہ سے نو کا رہ جائے تو صرف دس کا بھی رکھ سکتے ہیں۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ الباحث ابو زرعہ احمد بن احتشام حفظہ اللہ

1️⃣ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکی دور میں، اور پھر مدینہ میں تشریف لانے کے بعد اپنی حیات طیبہ کے آخری سال تک دس تاریخ کا ہی روزہ رکھا ہے.

اس لیے یہی سنت ہے.

کسی  ایک حدیث میں بھی دس تاریخ کے روزے کو صریح الفاظ میں منسوخ کرنا ثابت نہیں.

2️⃣ تمام احادیث میں عاشوراء کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔

ارشاد نبوی ہے وَصِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ “. صحیح مسلم ،1162.

یوم عاشوراء کا روزہ مجھے امید ہے گزشتہ سال کے گناہ مٹا دیتا ہے. اور عاشوراء دس تاریخ کو کہتے ہیں.

عاشوراء کا روزہ نو تاریخ کو قرار دینا، لغت کی رو سے اتنا ہی بعید ہے جیسے کوئی کہے، دس کا مطلب نو ہوتا ہے.

3️⃣ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس محرم کی صبح أنصار صحابہ کے ایک ایک محلے میں روزے کا پیغام بھجوایا. (صحیح بخاری ،1960).

4️⃣ ہمارے شیخ حضرت حافظ محمد شریف حفظہ اللہ نے اس پر گفتگو کرتے ہوئے کہ یوم عاشور  کا روزہ دس محرم ہی کو ہے۔ایک عظیم حدیث پیش کی ۔میں سمجھتا ہوں جو بھی اس حدیث مبارک پر غور کرے گا اسے کوئی اشکال باقی نہیں رہے گا ۔

امام بخاری اپنی سند کے ساتھ حمید بن عبدالرحمن سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما سے عاشوراءکے دن منبر پر سنا، انہوں نے کہا کہ اے اہل مدینہ ! تمہارے علماءکدھر گئے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ یہ عاشوراءکا دن ہے۔ اس کا روزہ تم پر فرض نہیں ہے لیکن میں روزہ سے ہوں اور اب جس کا جی چاہے روزہ سے رہے (اور میری سنت پر عمل کرے) اور جس کا جی چاہے نہ کھے۔ صحیح بخاری 2003

یہ خطاب رسول اللہ صلی اللہ کی وفات کے تقریبا 46،سال بعد(حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے مطابق 57 ہجری میں) حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی میں اہل مدینہ، صحابہ و تابعین کے اجتماع سے  دس محرم کو کیا۔۔

اور انہیں اسی دن روزے کی ترغیب دی اور بتایا کہ آج یعنی دس تاریخ کو عاشوراء کا روزہ سنت اور میں نے رکھا ہوا ہے. ۔کسی ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے بھی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر اعتراض نہیں کیا کہ دس تاریخ کو روزہ کیوں رکھا ہوا ہے، یہ تو منسوخ ہوچکا ہے.!! اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ و تابعین کا اس پر اتفاق تھا کہ عاشوراء کا روزہ دس تاریخ ہی کو رکھا جاتا ہے.

5️⃣ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بھی یہی فتوی دیتے تھے کہ یہودیوں کی مخالفت کرو نو اور دس کا روزہ رکھا کرو. مصنف عبدالرزاق 7839.

6️⃣ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عمر مبارک کے آخری سال جو فرمایا، کہ آئندہ سال میں ہم نو کا روزہ رکھیں گے تو اس سے مراد یہی تھا کہ یہودی صرف دس تاریخ کا ایک روزہ رکھتے ہیں، ان کی مخالفت کرتے ہوئے ہم آئندہ سال دس کے ساتھ نو کا روزہ رکھیں گے. اس روایت کے راوی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو تو یہی مفہوم سمجھ میں آیا تھا.

7️⃣ دس محرم کے روزے کی ایک اہم مناسبت حضرت موسی علیہ السلام سے قربت و محبت کا اظہار ہے. انہیں دس محرم کو فرعون سے آزادی ملی. اس مناسبت سے بھی دس تاریخ کا روزہ ہی قرین صواب ہے.

8️⃣ یہودی ہفتے کا روزہ رکھتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور خاص صرف ایک دن ہفتے کے روزے سے منع فرمایا، لیکن اگر اس کے ساتھ جمعے کا روزہ ملا لیا جائے تو اجازت ہے. کیونکہ ایسا کرنے سے یہودیوں سے مشابہت ختم ہو جاتی ہے، اسی طرح دس محرم کے ساتھ نو تاریخ کا روزہ ایڈ کرنے سے یہود سے تشبہ باقی نہیں رہتا.

9️⃣ اسلامی تاریخ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین، تابعین عظام اور دیگر کبار ائمہ کا یہی موقف رہا ہے.امام ترمذی، امام نووی، امام ابن عبدالبر نے اکثر علماء کا یہی موقف بیان کیا ہے.

1️⃣0️⃣ احتیاط اور تقوی کا تقاضا بھی یہی ہے.

اس لیے موجودہ دور کے کبار اساطین علم کا بھی یہی رجحان ہے۔

شیخ محدث العصر حافظ محمد شریف صاحب، فاضل مدینہ یونیورسٹی ،شیخ محترم شارح صحیح بخاری، عبدالستار الحماد صاحب ،مصنف کتب کثیرہ الشیخ ارشاد الحق أثری حفظہ اللہ ،محدث دیار سندھ شیخ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ اور دیگر  موجودہ کبار اہل علم کی یہی رائے ہے.

1️⃣1️⃣ ایک اشکال اور اس کاجواب

صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو لأصومن التاسع، میں لازما نو محرم کا روزہ رکھوں گا۔ (صحیح مسلم).

لیکن آئندہ سال محرم آنے سے پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے۔

بعض لوگ اس سے دلیل لیتے ہیں کہ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری سال نو کا ارادہ کر لیا تھا ،لہذا عاشوراء کا روزہ یہود کی مخالفت کرتے ہوئے نو تاریخ کو رکھا جائے گا۔

ہمارے علم کے مطابق حدیث سے یہ استدلال سخت محل نظر ہے۔

1. اس حدیث میں نو کاروزہ رکھنے کا عزم ہے،دس کے چھوڑنے کی کوئی ادنی وضاحت نہیں ہے۔

جب کہ کم و بیش  نو سال تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل دس تاریخ کو ہی روزہ رکھتے رہے ہیں، اس واضح اور صریح سنت کو منسوخ کرنے کے لیے اس درجے کی کوئی  واضح حدیث موجود نہیں ہے۔

2. اس روزے کی فلاسفی جناب موسیٰ علیہ السلام سے اظہار تعلق ہے اور فرعون سے نجات پانے کی خوشی میں ہے، اور یہ تاریخی واقعہ جناب موسیٰ علیہ السلام کے دور میں ہو چکا تھا، کئی صدیاں پہلے رو نما ہونے والے واقعے کی تاریخ کو تبدیل کرنا ممکن ہی نہیں ،علمائے اصول فقہ کے ہاں متفقہ اصول ہے کہ شرعی حکم کی تبدیلی ممکن ہے لیکن تاریخی خبر میں تبدیلی ممکن نہیں، یہ شرعی حکم ایک تاریخی خبر سے جڑا ہوا ہے، اس کی تاریخ تبدیل کرنا ممکن نہیں ہے، البتہ شرعی حکم کے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھ نو تاریخ کا اضافہ فرمانے کا ارادہ کیا ہے۔

3. انہی حقائق کی بنیاد پر امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں، صرف نو کے روزے والا موقف کم فہمی پر مبنی ہے۔ تمام احادیث، طرق اور الفاظ کو یکجا نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔ویسے یہ موقف لغت اور شریعت دونوں سے بعید تر ہے۔

ﻭﺃﻣﺎ ﺇﻓﺮاﺩ اﻟﺘﺎﺳﻊ ﻓﻤﻦ ﻧﻘﺺ ﻓﻬﻢ اﻵﺛﺎﺭ، ﻭﻋﺪﻡ ﺗﺘﺒﻊ ﺃﻟﻔﺎﻇﻬﺎ ﻭﻃﺮﻗﻬﺎ، ﻭﻫﻮ ﺑﻌﻴﺪ ﻣﻦ اﻟﻠﻐﺔ ﻭاﻟﺸﺮﻉ، (زاد المعاد ,2/72).

2. اسی طرح سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جو سائل کو راہ نمائی کی کہ اگر تم عاشوراء کا روزہ رکھنا چاہتے ہو تو محرم کا چاند دیکھ کر گنتی شروع کرنا اور نو تاریخ کو روزہ رکھنا، اس کی بھی یہی حقیقت ہے کہ دس تاریخ کی بات تو انڈر سٹد تھی، اس لیے اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں سمجھی گئی اور یہ بتایا کہ نو سے روزہ شروع کر دینا۔ (زاد المعاد ،2/71).

1️⃣2️⃣ عاشورہ کے روزے پر روافض کی طرف سے ایک اشکال،

سوشل میڈیا کے اس دور میں دین کے مسلمہ مسائل پر بعض جاہل لوگ اس انداز میں اشکال عائد کرتے ہیں کہ سادہ لوح مسلمان تذبذب کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مجھ سے میرے ایک سٹوڈنٹ نے سؤال کیا اور مجھے حیران کر دیا، میں سوچ بھی نہیں سکتاتھا کہ کوئی مسلمان اس قدر واضح احادیث صحیحہ کی موجودگی میں ایسی منفی ذہنیت کا مریض بھی ہوسکتاہے!!!

ایک پوسٹ میں لکھا تھا،کہ یوم عاشوراء کا روزہ بنو امیہ نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی خوشی میں شروع کیا تھا، حالانکہ یہ روزہ تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے دور سے تعلق رکھتا ہے، اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکی زندگی اور پھر مدنی زندگی میں یہ روزہ رکھتے رہے ہیں۔

1️⃣3️⃣ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دس محرم کے روزے کی خصوصی فضیلت ہے۔ اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ صرف محرم الحرام کا ایک ہی روزہ باعث فضیلت ہے،محرم کا تمام مہینہ نفلی روزوں کے لیے رمضان المبارک کے بعد سب سے زیادہ فضیلت والا مہینہ  ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “رمضا ن کے بعد سب سے افضل روزے اللہ کے مہینے “محرم”کے ہیں اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز رات کی نماز ہے۔ صحیح مسلم 2755۔

 فضیلۃ الشیخ محمد ادریس اثری حفظہ اللہ

سوال: مفتی عبد الرحمن عابد کہتے ہیں ان کا کلپ بھی ہے کہ یوم عاشورہ کا روزہ صرف نو محرم کا ہے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح فرمان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگلے سال میں نو محرم کا روزہ رکھوں گا۔ اس حدیث میں بھی کا لفظ نہیں ہے۔ صرف نو محرم کا ذکر ہے اس لئے نو دس کا نہیں نو محرم کا روزہ رکھنا چاہیے۔

جواب: “بھی” کا لفظ نہیں ہیں، “ہی” کا لفظ بھی ہے، نو ہی کا رکھوں گا، اس پر تفصیل سے علماء لکھ چکے ہیں، آٹھویں صدی میں ابن قیم رحمہ اللہ نے اس کا بھرپور جواب دیا ہے، انہوں نے کہا ہے کہ یہ موقف غلط ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دس کے ساتھ نو کا روزہ رکھنے کا ارادہ کیا تھا، تاکہ مخالفت ہو جائے، اگر کوئی نو کا نہیں رکھ سکتا ہے تو گیارہ کا رکھ لے، باقی دس کا روزہ موجود ہے، عاشورہ عشر سے ماخوذ ہے، عشر دس کو کہتے ہیں، برصغیر پاک و ہند کے تمام علماء کا یہی موقف ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل: کیا نبی وسلم کے بعد جو صحابہ اکرام تھے کیا انہوں نے روزہ رکھا اگر رکھا ہے تو ان کی کوئی حدیث ذرا ریفرنس کے ساتھ شیئر کر دیں۔

جواب: دین کو سمجھنے کا یہ طریقہ نہیں ہے، ایک عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے، اس عمل کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فضائل بیان کیے ہیں، اب یہ بتائیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نے عمل کیا ہے یا نہیں کیا ہے، اس طرح تو ہر عمل کے بارے میں سوال ہوگا، پھر یہ کہا جائے گا کہ  یہ بتائیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع الیدین کیا ہے، جی ہاں کیا ہے، تو پھر یہ سوال ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کس نے کیا ہے، اگر اس کا جواب دے دیا جائے تو پھر کسی کو متعین کر کے کہا جائے کہ اس صحابی سے ثابت کرکے دیکھاو، سوال کا یہ طریقہ تجاہل عارفانہ ہے، دین کو بگاڑنے کا ذریعہ ہے، اور یہ بھی نہیں کہ وہ عمل منسوخ ہو، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو بات آ جائے اس پر عمل کرنا چاہیے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ