دن منگل، قمری تاریخ 23؍ ذی الحجہ 1444ھ (اس اعتبار سے کہ غروب آفتاب کے ساتھ قمری تاریخ تبدیل ہوجاتی ہے ورنہ منگل کے دن قمری تاریخ تو 22؍ہی تھی) انگریزی تاریخ 11؍جولائی 2023ء بوقت رات 9؍بجے بالآخر وہ گھڑی آپہنچی جس کے تصور سے دل کانپ جایا کرتا تھا، یعنی والد گرامی مولانا محمد صاحب اعظمی کا سایۂ عاطفت ہمارے سروں سے اٹھ گیا اور آپ نے اپنی جان جان آفرین کے حوالے کردی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہم اغفرلہ وارحمہ۔
آپ کی تعلیمی اسناد میں تاریخ پیدائش اکتوبر 1933ء درج ہے، لیکن قرائن سے اندازہ ہے کہ اصل تاریخ پیدائش 1930ء یا 1931ء ہوگی۔ اس اعتبار سے بوقت وفات آپ کی عمر تقریباً 93؍برس ہوگی، اور قمری اعتبار سے 96؍برس۔ آپ کی حیات میں کئی مختصر اور مفصل مقالات ومضامین اردو اور عربی دونوں زبانوں میں آپ کی حیات وخدمات سے متعلق منظر عام پر آچکے ہیں۔ زیر نظر تحریر میں صرف آپ کے مرض الموت اور سانحہ ارتحال کی کچھ تفصیل پیش کی جارہی ہے۔
اللہ رب العالمین نے آپ کو نسبتاً طویل عمر عطا کی، اور اس کی توفیق سے آپ نے اس عمر کو دین اور علم کی بھرپور خدمت میں صرف کیا، اللہ تعالیٰ آپ کی خدمات کو شرف قبول بخشے۔ تحقیق وتخریج اور ترجمہ وتالیف کے علاوہ آپ نے بہت سارے موضوعات پر مقالات ومضامین بھی لکھے، اسی طرح بہت سے دعوتی اور سماجی موضوعات پر پمفلٹ، کتابچے اور ہینڈبل وغیرہ بھی تحریر کرکے شائع فرمایا۔ اواخر عمر میں موت اور سفر آخرت آپ کی قلمی کاوشوں کا موضوع بن گیا۔ 2010ء میں جب آپ عمر کی نویں دہائی میں تھے آپ نے ’’لمحات موت‘‘ کے نام سے کتاب تالیف فرمائی، اس کتاب کے مقدمہ میں آپ لکھتے ہیں:
’’راقم الحروف کی زندگی کا سفر آخری مرحلے سے گذر رہا ہے۔ رنگ برنگ کے جسمانی عوارض اپنے جلوے دکھا رہے ہیں، علمی بالخصوص قلمی سفر دشوار سے دشوار تر ہوتا جارہا ہے، یہ ادنیٰ سی قلمی کاوش جبری وتکلفی ہے جو آخری کاوش ہونے کا پیغام ہے۔ والعلم عند اللہ۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس حقیر قلمی کاوش کو قبول فرمائے، عبرت گیری اور نصیحت پذیری کے لیے نافع بنائے ، ہم سب کو حق پر قائم رکھے، شدائد موت کو آسان فرمائے اور اپنی رحمت سے ہمیں حسن خاتمہ کی نعمت سے نوازے، آمین۔‘‘ (ص:8)
لیکن اس موضوع پر آپ کے مطالعہ اور غور وفکر کا سلسلہ برابر جاری رہا اور تقریباً 5؍سال کے بعد یعنی 2015ء میں کتاب سابق کے مشتملات کے علاوہ جو مزید معلومات اور واقعات آپ کو دستیاب ہوئے ان پر مشتمل ایک دوسری کتاب ’’زندگی سے ریٹائرمنٹ‘‘ کے نام سے ترتیب دی۔ اس کتاب کے مقدمہ میں آپ فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ کا بے پایاں شکر واحسان ہے کہ بندہ کے لیے جو کام تکلیف ما لا یطاق کی نوعیت سے دوچار ہوتا ہے وہ اپنی قدرت ورحمت سے ٹمٹماتے چراغ سحری میں اتنی توانائی عطا کردیتا ہے کہ بجھنے سے پہلے اپنی کارآمد جھلک دکھا دیا کرتا ہے۔ حالات مذکورہ میں موضوع سے متعلق جو حقیر وقصیر مجموعہ وجود پذیر ہوا اس کی طباعت واشاعت کے لیے مکتبہ الفہیم مئو نے اپنی خدمت کی سوغات پیش کی، شکرا وجزاھم اللہ خیرا۔‘‘ (ص:12)
سفر آخرت کے لیے آپ اس قدر فکر مند اور مستعد رہتے تھے کہ برسوں پہلے سے کسی بھی نئے کپڑے اور جوتے چپل لینے کے لیے تیار نہ ہوتے تھے اور کہتے تھے کہ میں زندگی کے آخری پڑاؤ پر ہوں، میرے پاس جو کچھ ہے وہ کافی ہے۔ اس تعلق سے ہم لوگوں کا اصرار بے سود ٹھہرتا، البتہ کچھ چیزیں بڑی حکمت کے ساتھ آپ کے علم میں لائے بغیر تبدیل کردی جاتی تھیں۔ جب تک صحت نے اجازت دی پنج وقت نمازکے لیے گھر سے متصل مسجد تشریف لے جاتے، مسجد کے زینوں پر چڑھنے میں مشقت ہوتی پھر بھی دھیرے دھیرے چڑھتے اور مسجد میں داخل ہوجاتے۔ غالبا 2019ء کے اواخر میں ضعف ونقاہت زیادہ بڑھ جانے اور اٹھنے بیٹھنے میں زیادہ مشقت ہونے کی وجہ سے مجبوراً مسجد جانا موقوف ہوگیا اور گھر پر نماز ادا کرنے لگے.
اللہ کے فضل سے آپ کسی بھی قسم کے خطرناک عارضے سے محفوظ تھے، وقتاً فوقتاً سردی، بخار، قبض، اسہال، دانت کی تکلیف، دوران راس، ضعف بصارت اور اس قسم کے عوارض آتے جاتے رہتے۔ 9؍ستمبر 2022ء کو گردے کی پتھری کا آپریشن ہوا، آپریشن کے بعد دو تین روز تک سب کچھ ٹھیک چلا۔ 12؍ستمبر 2022ء کو اچانک آپ کی طبیعت بگڑنے لگی اور سخت اضطرابی کیفیت طاری ہوگئی، لیکن الحمد للہ ایک دو روز کے بعد افاقہ ہوا اور دھیرے دھیرے حالات معمول پر آگئے۔ اب آپ ایک چھڑی کا سہارا لے کر چلنے لگے اور وقت گذرنے کے ساتھ نقاہت میں اضافہ ہوتا گیا۔
جون 2023ء کے اوائل میں آپ کے اوپر تیز بخار کا حملہ ہوا، یہ بخار تمام تر علاجی تدابیر کے باوجود چار پانچ روز تک آپ کے جسم پر قابض رہا۔ اس کی وجہ سے کھانا پینا بے حد کم یعنی نہ کے برابر ہوگیا۔ بخار سے چھٹکارے کے باوجود اکل وشرب کی مقدار میں کوئی اضافہ نہ ہوسکا، یوں کمزوری شدید سے شدید تر ہوگئی، اور آپ بستر کے ہوکر رہ گئے، ذہن بھی خوب کام نہیں کرتا تھا، البتہ افراد خانہ میں سے جن سے برابر سامنا ہوتا انہیں تو پہچانتے، لیکن جو وقفے وقفے سے آتے بسا اوقات ان کو شناخت نہیں کرپاتے۔ 20؍جون کی صبح میں بنارس سے حاضر ہوا، تو دیکھ کر خوش ہوئے، بہنوں سے کہا کہ ان کو ناشتہ کراؤ، اس کے بعد جب بھی آپ کے پاس جاتا تو پوچھتے کہ ابھی آپ یہیں ہیں؟ بنارس نہیں گئے؟ چوں کہ میرا معمول تھا کہ 3-4؍ہفتے کے بعد اختتام ہفتہ پر جمعرات کو بنارس سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا اور جمعہ کا پورا دن آپ کے ساتھ گزار کر شام میں بنارس واپس آجاتا۔ اسی وجہ سے آپ یہ سوال کرتے تھے۔ میں آپ کو بتلاتا کہ اب عید الاضحی کی تعطیل چل رہی ہے، اس لیے فی الحال یہیں رہیں گے۔ لیکن دوبارہ ملاقات پر وہی سوال دہراتے۔
ذہنی غیبوبت کی حالت میں دیکھا جاتا کہ بستر پر لیٹے ہوئے ہاتھ اٹھا کر رفع یدین کرتے، نیت باندھتے اور زبان سے دعائیں پڑھتے، کبھی کبھی درمیان ہی میں غنودگی طاری ہوجاتی اور یہ سلسلہ منقطع ہوجاتا اور کبھی سلام پھیرنے تک سلسلہ جاری رہتا، ان ایام میں کثرت سے ذکر واذکار کرتے، مختلف دعائیں پڑھتے رہتے، اگرچہ زیادہ بات چیت نہ کرتے، صرف سلام کا جواب دے دیتے۔ وفات سے دو تین روز قبل یہ سلسلہ بھی ختم ہوچلا۔ جسم کی حرکت بھی کم ہوتی گئی، 10؍جولائی کی صبح سے ہوش وحواس مکمل طور سے جواب دے چکے تھے، سانس چل رہی تھی اور ہاتھ پیر میں کبھی کبھی معمولی حرکت ہوجاتی۔
11؍جولائی کو دوپہر کے بعد سے کئی بار نزع جیسی کیفیت طاری ہوتی، پھر کچھ سکون ہوجاتا، بالآخر رات کے 9؍بجے جب کہ لوگ عشاء کی نماز ادا کرکے نکل رہے تھے آپ نے آخری سانسیں لیں اور جسم سے روح کا رشتہ منقطع ہوگیا۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ۔
وفات کی خبر منٹوں میں سوشل میڈیا کے ذریعہ پوری دنیا میں پھیل گئی، عرب وعجم میں پھیلے آپ کے تلامذہ، متعارفین ومعتقدین کے تعزیتی پیغامات مختلف ذرائع سے آنا شروع ہوگئے، ہر طرف صف ماتم بچھ گئی۔ دوسرے دن بتاریخ 12؍جولائی 2023ء مطابق 23؍ذی الحجہ 1444ھ بروز بدھ صبح دس بجے عیدگاہ اہل حدیث ڈومن پورہ پچھم میں اس گناہ گار کی امامت میں نماز جنازہ ادا کی گئی اور عیدگاہ سے پچھم آبائی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔
مصیبت کی اس گھڑی میں بے شمار لوگوں نے بذریعہ فون، واٹس ایپ، تحریری وتقریری تعزیت کی اور والد رحمہ اللہ کے حق میں دعائے مغفرت کی اور آپ کو خراج عقیدت پیش کیا، بہت سارے عرب علماء وفضلاء نے بھی مختلف ذرائع سے تعزیتی کلمات وپیغامات ارسال کیے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ مصروفیت کی وجہ سے میں بروقت سب کا فرداً فرداً شکریہ نہیں ادا کرسکا، ان سطور کے ذریعہ ان تمام بھائیوں اور بہنوں کا تہ دل سے اپنی طرف سے اور جملہ اہل خانہ کی طرف سے شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اس ساعت غم میں ہماری ڈھارس بندھائی اور والد رحمہ اللہ کو دعائیں دیں۔ ان تمام احباب ومتعارفین کی خدمت میں کلمات تشکر پیش کرنے کے ساتھ یہ درخواست کروں گا کہ دعاؤں کا سلسلہ جاری رکھیں اور میت کو فائدہ پہنچانے کا ذریعہ بنیں۔
واضح رہے کہ والد رحمہ اللہ کے تعلق سے یہ سطور آپ کے مرض الموت اور سانحہ ارتحال کی بعض تفصیلات پر مشتمل ہیں، بہت سارے محبین ان تفصیلات کو جاننے کی خواہش رکھتے تھے اس لیے بعجلت یہ سطور سپرد قلم کی گئی ہیں۔ رہ گئی بات آپ کی مکمل سوانح عمری کی تو عربی واردو ہر دو زبانوں میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے جس کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔ اس نوعیت کی چند تحریروں کے حوالے درج ذیل ہیں:
1- ’’مولانا محمد اعظمی: حیات وخدمات‘‘، مقالہ برائے سند فضیلت از ثروان نعیم، فاضل جامعہ سلفیہ بنارس (2011ء)
2- ’’مولانا محمد اعظمی: حیات وخدمات‘‘، مضمون یاسر اسعد، مجلہ المنار، جامعہ سلفیہ بنارس (2015ء) شمارہ:37
3-’’مولانا محمد اعظمی‘‘ مضمون مولانا محمد اسحاق بھٹی، مشمولہ چمنستان حدیث
4- ’’مولانا محمد اعظمی‘‘ مضمون مولانا خالد حنیف صدیقی، مشمولہ تراجم علمائے اہل حدیث، ج1
5-’’مولانا محمد اعظمی‘‘ مضمون مولانا محمد مستقیم سلفی، مشمولہ جماعت اہل حدیث کی تصنیفی خدمات، ج1
6- ’’مولانا محمد اعظمی مئوی حفظہ اللہ کی علمی وتدریسی خدمات‘‘ مضمون ڈاکٹر رفیق اشفاق، مجلہ التبیان، دہلی، شمارہ ستمبر (2021ء)
7- ’’احساسات قلب حزیں‘‘ ایضا ’’سابق شیخ الجامعہ‘‘ از شاہد جمال ابو الحسن، مجلہ تہذیب، جامعہ عالیہ عربیہ مئو، شمارہ (1995ء)
8- ’’ترجمۃ موجزۃ للشیخ المسند محمد الأنصاري الأعظمی‘‘ (عربی) از اسعد اعظمی (1432ھ= 2011ء)
9- ’’في وفاۃ شیخنا محمد بن عبد العلي الأعظمي رحمہ اللہ‘‘ (عربی) از شیخ محمد زیاد بن عمر التکلۃ
10- شیخ محمد بن ناصر العجمی (کویت) نے بھی اپنی کسی تصنیف میں آپ کا مفصل تعارف لکھا ہے۔
رب العالمین سے دعا ہے کہ والد رحمہ اللہ کی حسنات کو شرف قبول بخشے، آپ کی لغزشوں کو درگذر فرمائے، آپ کی قبر کو کشادہ کردے اور نور سے بھر دے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
اللہم إن والدنا في ذمتک وحبل جوارک، فقہ فتنۃ القبر، وعذاب النار، وأنت أھل الوفاء والحق، فاغفرلہ وارحمہ، إنک أنت الغفور الرحیم۔
اللہم عبدک وابن أمتک احتاج إلی رحمتک، وأنت غني عن عذابہ، إن کان محسنا فزد في حسناتہ، وإن کان مسیئا فتجاوز عنہ۔ آمین۔

اسعد اعظمی، جامعہ سلفیہ بنارس