اصنافِ ادب کی اقسام میں سے ایک قابل ذکر قسم
حالِ دل:
(نامہ ہائے دور دراز)
“مکتوب نگاری” بھی ہے جس میں گو کہ ادبیت مقصود نہیں ہوتی مگر حالات و واقعات، اشارے، کنایے اور ضرورتِ اختصار اسے ادب کی اس معراج پہ لے جاتے ہیں جہاں قاری علم کی وادیاں قطع کرتا ہے وہیں ادبی جملوں سے زبان کو چٹخارہ بھی مہیا کرتا ہے.
اردو شعراء نے وادی عشق و محبت میں قاصد، نامہ بر، اور کبوتر کو محض اس لئے عزت و احترام سے نوازا اور جابجا ان کا تذکرہ کیا ہے کہ یہ پیغام رسانی کا فریضہ انجام دیتے تھے.
خطوط کو جس نے باقاعدہ ادب کی شکل دی ان میں حضرت غالب سرفہرست نظر آتے ہیں. جس ادبیت اور اختصار و جامعیت سے مرزا نوشہ نے خطوط نویسی کی ہے اس کے موجد بھی اور منتہی بھی وہی ہیں…یوں تو مرزا کے خطوط کے تین مجموعے” عودِ ہندی، اردوئے معلی اور مکاتیب غالب ” شائع ہو چکے ہیں. مگر جو لسانی خصوصیات، انشاء پردازی کی جھلک، شوخئ تحریر، منظر کشی ، تمثیل نگاری، شوخی و شرارت، لطافت و ظرافت، علمی و ادبی مباحث، مراسلہ بشکل مکالمہ اور ماحول کی عکاسی ” مکاتیب میں ہے وہ دیگر دو مجموعوں میں کہاں؟ گویا :
ع: مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی
غالب کے بعد امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ بھی مکتوب نگاری میں ایک طرز خاص کے موجد ہیں۔ مولانا کے خطوط کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن میں غبار خاطر” مکاتیب ابوالکلام آزاد “، ”نقش آزاد“، ”تبرکات آزاد“اور ”کاروانِ خیال“ قابل ذکر ہیں۔ لیکن ان میں سب سے زیادہ شہرت ”غبارِ خاطر “ کے حصے میں آئی۔
خط کا جواب دینا اعلیٰ اخلاقی قدر ہے جو ان افراد میں پائی جاتی ہے جو اعلیٰ و ارفع اخلاق اقدار کے حامل ہوتے ہیں…مؤرخ برصغیر مولانا محمد إسحاق بھٹی رحمہ اللہ جہاں دیگر اعلی صفات کے حامل اور اخلاقی اقدار سے متصف تھے وہیں ان کی یہ کمال خوبی تھی کہ اپنی مصروفیت بھری زندگی سے فرصت و فراغت کے لمحات چراتے اور خط کا جواب ضرور ارسال کرتے…فقیر نے آنجناب کو پہلی مرتبہ خط لکھا تو جوابی خط سے پہلے ہی آپ کا نمبر مل گیا…سلام کے بعد میں نے اپنا نام بتایا تو چہکتے ہوئے فرمانے لگے تو اچھا آپ فیصل آباد والے عبد العزيز بٹ ہیں جنہوں نے میری سرگزشت ” گزر گئی گزران” ایک دن میں پڑھی تھی. پھر یوں بے تکلف گفتگو کرنے لگے جیسے برسوں کی شناسائی ہو…میں نے خط میں جوابی لفافہ بھی رکھ دیا تھا…جوابی خط میں آپ نے آئندہ ایسا کرنے سے منع کردیا…غور طلب بات یہ ہے کہ جو ہستی ایک طالب علم کے خط کا جواب دینے کو اتنا اہم سمجھے کیا وہ دیگر بڑی شخصیات کے خطوط کے جواب نہ دیتی ہوگی…دیے بالکل دیے…اور پھر جوابی خطوط کو مولانا بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے چھوٹے بھائی سعید بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے نہ صرف سینت کر رکھا بلکہ اس نفاست اور سلیقے قرینے سے سنبھالا کہ آنے والی نسل بھائی لقمان سعید صاحب اور عزیزم حسان سعید نے ان اوراق کو دیمک کے حوالے کرنے کی بجائے سپردِ کتابت کیا جس کے بعد مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے نام بیرون ممالک سے لکھے گئے یہ خطوط طباعت کی آزمائش سے گزر کر رونقِ بازار بن چکے ہیں…ان خطوط میں حضرت بھٹی صاحب
رحمہ اللہ کی شخصیت کے ویسےنقوش ابھرتے ہیں جیسے ” نقوش عظمت رفتہ” قافلہ حدیث ” بزم ارجمنداں” کی شخصیات کے خاکے ہیں…لقمان بھٹی صاحب نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے دوران جن جاں گسل مراحل سے گزرتے ہوئے اس کتاب کو ترتیب دیا اور جو جوکھم اٹھائے ہیں مقدمے میں اس کی روداد پڑھ کر بے ساختہ زبان سے نکل جاتا ہے:
ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرتؔ کی طبیعت بھی
کسی بھی کتاب کی ترتیب و تسوید، تزیین و آرائش اور کتابت و طباعت کے مراحل محبوب کی زلفوں کے پیچ و خم کی طرح الجھے ہوئے ہوتے ہیں…اہل علم قارئین کا یہ فرض بنتا ہے کہ کتاب خود خرید کر پڑھیں اور لوگوں کو اس کی خریداری کی رغبت دلائیں…لہٰذا تمام اہل علم و ادب کی خدمت ميں گزارش ہے کہ اس کتاب کی خریداری میں حصہ ڈالیں تاکہ ایسی کتب منصہء شہود پہ آتی رہیں اور علمی فضا برقرار رہے.
نثر نگار: حافظ عبد العزيز آزاد