سوال

مفتیانِ کرام سے رہنمائی مطلوب ہے کہ یونیورسٹی یا دیگر تعلیمی اداروں کی طرف سے طلبہ کو دی گئی اسائنمنٹس یا تھیسس کسی سے لکھوانا یا کسی کو لکھ کر دینا اور اس کے بدلے اجرت لینا کیسا ہے؟ اور اگر یہ کام بغیر اجرت کے کیا جائے یا کروایا جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

یونیورسٹی یا دیگر تعلیمی اداروں کی طرف سے طلبہ کے ذمے جو اسائنمنٹس یا تھیسس ادارے کی طرف سے بطور امتحان یا جانچ پڑتال دیے جاتے ہیں، ان کا مقصد طالب علم کی تعلیم، اپنی محنت، تحقیق اور قابلیت کا اندازہ لگانا ہوتا ہے۔ لہٰذا کسی دوسرے شخص سے یہ کام لکھوانا یا کسی کو لکھ کر دینا، خواہ اجرت کے ساتھ ہو یا بلا اجرت، دھوکا دہی اور گناہ میں تعاون کے زمرے میں آتا ہے، جو کہ شرعاً ناجائز ہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

“وَلَا تَعَاوَنُوۡا عَلَى الۡاِثۡمِ وَالۡعُدۡوَانِ‌”. [المائدة: 02]

’’اور گناہ اور زیادتی پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو‘‘۔

نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

“مَنْ غَشَّ فَلَيْسَ مِنِّی”. [صحیح مسلم: 102]

’’جس نے دھوکا کیا، وہ مجھ سے نہیں‘‘۔

لہٰذا اسائنمنٹ یا تھیسس تیار کر کے دینا، یا کسی سے تیار کروانا، خواہ اجرت لی جائے یا نہ لی جائے، دونوں ہی صورتوں میں ناجائز ہے، کیونکہ اس میں ناجائز کام میں تعاون، جھوٹ اور دھوکا دہی ہے۔

البتہ اگر کوئی شخص کسی طالب علم کی محض رہنمائی کرے، طریقہ کار سمجھائے، یا کوئی اور مشورہ دے تو یہ جائز ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ