اگست 2006 کی ایک روح پرور شام
اگست 2006 کی ایک روح پرور شام… شیخ الحیث مولانا عبدالرشیدمجاہدآبادی کے مرکز ام الہدیٰ کی
فضاؤں میں نور کی بارش ہورہی تھی۔ میں وہاں زیرتعلیم تھا- جامعہ میں سالانہ محفل قرأت اپنے عروج پر تھی۔ قرأنِ کریم کے نغمات فضا میں گھل کر دلوں کو بیدار کر رہے تھے۔ ملکی و غیر ملکی قراء کی موجودگی نے اس محفل کو ایک یادگار روحانی تجربہ بنا دیا تھا، مگر ایک نام، ایک آواز، ایک شخصیت ایسی تھی جس نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا-قاری سید سعید مصری۔
خوبرو، صحت مند، متین اور باوقار چہرہ… عمر کے جس حصے میں بدن کمزور ہونے لگتا ہے، وہاں وہ شخص قوت و تازگی کا پیکر نظر آیا۔ جیسے قرأت کی برکت نے ان کے وجود کو دائمی توانائی عطا کر دی ہو۔ جب مائیک کے قریب آئے اور لب ہلے تو ایسا محسوس ہوا جیسے آسمان سے آواز اتر رہی ہو، جیسے فرشتے خاموش ہو کر سننے لگے ہوں۔
وہ لہجہ، وہ لحن، وہ جذب… قرأت کی ایک دنیا اس ایک آواز میں سمٹ آئی۔ ہر آیت میں ایک تاثر، ہر وقف میں ایک پیغام، اور ہر ادائیگی میں ایک کیفیت تھی۔ مجمع پر ایک وجدانی کیفیت طاری ہو گئی، جیسے وقت تھم گیا ہو، سانسیں رک گئی ہوں، اور کائنات کے ذرے ذرے پر سکون برسنے لگا ہو۔
میں آج بھی اس تلاوت کے سحر سے آزاد نہیں ہو پایا۔ وقت گزر گیا، سال بیت گئے، کئی محافل آئیں اور گئیں، مگر وہ لمحہ… وہ آواز… وہ قاری… دل کے نہاں خانوں میں آج بھی گویا زندہ ہیں۔
اب جب کہ گزشتہ روز یہ خبر ملی کہ قاری سید سعید مصری ہم میں نہیں رہے… دل جیسے ڈوب سا گیا۔ وہ آواز جس نے لاکھوں دلوں کو قرآن سے جوڑا، آج خاموش ہو گئی۔ مگر ایسی آوازیں خاموش نہیں ہوتیں، وہ آسمانوں میں گونجتی ہیں، وہ دلوں میں گیت بن کر رہتی ہیں، اور وہ قرآن کے ساتھ زندہ رہتی ہیں۔
اے سیدِ قرآت! تم گئے نہیں، تم ہر اُس دل میں زندہ ہو جہاں قرآن کی محبت ہے۔ تمہاری تلاوت ہمارے دلوں کا سرمایہ ہے، اور تمہارا سحر ہمیشہ باقی رہے گا۔
اللہ تعالیٰ تمہاری مغفرت فرمائے، تمہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے، اور ہمیں قرآن سے وہ عشق عطا کرے جو تمہارے لہجے سے چھلکتا تھا۔
إنا لله وإنا إليه راجعون۔
(صہیب یعقوب)