سوال (3061)

ایک والد کے تین یا چار بیٹے ہیں، ان میں سے ایک کو بھاری رقم دیتا ہے، وہ کاروبار کرتا ہے، باقیوں کو نہین دیتا ہے، کیا اس والد سے پوچھا جائے گا؟

جواب

بالکل والد نے ظلم کیا ہے، قیامت کے روز والد کی گرفتاری ہوگی، ہمارے ہاں اکثر سمجھا جاتا ہے کہ فلاں بیٹا اچھا کھاتا پیتا ہے، اس کو کیا ضرورت ہے، بات ضرورت کی نہیں ہے، بلکہ بات عدل کی ہے، ہمارے معاشرے کو جو چیزیں کھوکھلا کر رہی ہیں، ان میں سے ایک چیز یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں والدین کسی ایک کو زیادہ دے دیتے ہیں، پھر ہوتا یہ ہے کہ والدین چلے جاتے ہیں، ان کے بعد لڑائی نسل در نسل چلتی رہتی ہے، اس لڑائی کا مدار ان والدین پر ہے، جنہوں نے عدل نہیں کیا تھا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ

“اعْدِلُوا بَيْنَ أَوْلَادِكُمْ، ‏‏‏‏‏‏اعْدِلُوا بَيْنَ أَبْنَائِكُمْ” [سنن ابي داؤد : 3544]

«اپنی اولاد کے درمیان انصاف کیا کرو، اپنے بیٹوں کے حقوق کی ادائیگی میں برابری کا خیال رکھا کرو (کسی کے ساتھ ناانصافی اور زیادتی نہ ہو)»

فضیلۃ الشیخ عبدالرزاق زاہد حفظہ اللہ

اگر والد موجود ہے تو والد کو سمجھانے کی ضرورت ہے، اگر والد نے گفٹ اور ہبا کیا ہے تو ان کو برابری کا خیال رکھنا تھا، کیونکہ والد برابری کے پابند ہیں، اگر ایسے دیا ہے کہ وہ کاروباری نظام وغیرہ سنبھالے، باقی آمدن والد کے پاس ہے تو وہ آمدن گھر میں خرچ ہوتی رہے۔ کوئی اٹھ کر اپنا حصہ نہ مانگے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ