خالد حربی سعودی ٹریفک پولیس میں آفیسر ہیں، یہ کہتے ہیں ایک دن ہمیں اطلاع ملی کہ مکہ روڑ پر ایک فیملی کی گاڑی کو حادثہ پیش آیا ہے،ہم جائے حادثہ پر پہنچے، پولیس کے علاوہ ریسکیو کی ٹیمیں بھی پہنچ چکی تھیں۔ یہ سعودی عرب میں مقیم ایک مصری فیملی تھی۔ ماں، باپ اور دو بچے گاڑی میں سوار تھے۔ حادثہ انتہائی خطرناک تھا۔ باپ بری طرح کچلا گیا تھا۔ انکی موت واقع ہوچکی تھی بچے اور ماں معجزاتی طور پر بچ گئے تھے۔

انہیں معمولی چوٹیں لگی تھیں۔ ریسکیو ٹیمیں اپنا کام تیزی سے کر رہی تھیں۔ بچے کسی سے قابو نہیں ہو رہے تھے وہ دوڑ کر اپنے ابو کی لاش سے لپٹ جاتے تھے پولیس انہیں مشکل سے الگ کرتی تھی۔ یہ سلسلہ جاری تھا لیکن حیرت یہ تھی کہ بچوں کی ماں حادثے سے کچھ دور خاموش بیٹھی تھی۔

نہ وہ چیخ چلا رہی تھی نہ وہ رو رہی تھی۔ اس کی زبان پر بس ایک ہی جملہ تھا کہ ہر حال میں اللہ تیرا شکر ہے،ہم سب اس عورت کے صبر پر حیران تھے۔ بچے بار بار باپ کی لاش کی طرف لپکتے تھے،یہ پھول جیسے دو بچے تھے ان کا رونا دیکھ کر میرے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا۔ مجھ سے رہا نہیں گیا، میں بھی بچوں کی طرح اونچی آواز میں رو رہا تھا۔

مجھے یوں دیکھ کر میرے ساتھی بھی پریشان ہو کر مجھے سمجھانے لگ گیے کہ آپ وردی میں اور ڈیوٹی پر ہیں اور آپ نے یہ پہلا حادثہ بھی نہیں دیکھا ہے۔ اس موقعے پر اپنے چہرے کے تاثرات کو چھپانا ہماری تربیت کا حصہ ہے، لیکن مجھ پر انکی باتوں کا اثر نہیں ہو رہا تھا میں بس روتے ہی جا رہا تھا۔ میری یہ حالت دیکھ کر میرے ساتھیوں نے مجھے گاڑی میں بٹھا کر گھر بھیج دیا،میں گھر آیا اور اپنی بیوی کو واقعے سے متعلق بتا دیا۔

میری بیوی ایک نیک خاتون ہے ہماری شادی کو اٹھارہ سال گزر چکے ہیں ہماری پسند کی شادی تھی۔ زندگی میں ہر طرح کی خوشیاں تھی، مالی آسودگی تھی۔ ہم سال میں دو بار ملک سے باہر گھومنے بھی جاتے تھے،ہاں مگر ہماری زندگی میں ایک کمی تھی وہ یہ کہ ہم دونوں اولاد سے محروم تھے، شادی کے بعد جب اولاد نہ ہوئی ہم نے علاج کیلئے ہاتھ پیر مارے۔ مختلف ملکوں کا سفر کیا۔ ہم علاج کیلئے مصر بھی گیے لیکن ہر جگہ سے ہمیں ایک ہی جواب ملتا تھا کہ آپ کی بیوی کبھی ماں نہیں بن سکتی ہے۔ پھر ہم نے اسے تقدیر کا لکھا سمجھ کر صبر کیا۔ ہمیں صبر آگیا تھا۔

ہم اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر راضی تھے۔ بہرحال اس دن گھر آکر مجھے سخت بے چینی رہی، صبح آفس میں دوستوں سے پتہ چلا کہ وہ عورت اور بچے فلاں ہسپتال میں ہیں،میں گھر آیا اور اپنی بیوی کو لیکر ہسپتال گیا،میری بیوی نے اس خاتون اور بچوں سے تعزیت کی، انہیں حوصلہ دیا، صبر کی تلقین کی، اور ان سے کہا کہ تمہیں کسی بھی مدد کی ضرورت ہوگی ہم حاضر ہیں۔

ایک آدھ دن میں خاتون اور بچے اپنے گھر منتقل ہوچکے تھے البتہ اس بندے کی لاش ابھی ہسپتال میں پڑی تھی،قانونی کارروائی کے بعد اسے مصر بھیجنے کی اجازت ملنی تھی۔ دو دن بعد ہم کچھ سامان اور بچوں کی دل جوئی کیلئے کچھ تحائف لیکر اس خاتون کے گھر پہنچے۔اس دن ہم دیر گیے تک خاتون کے گھر میں رہے میری بیوی اس خاتون سے باتیں کرتی رہی اور میں بچوں کا دل بہلاتا رہا، یہاں ان کا کوئی نہیں تھا،واپس آتے ہوئے ہم نے خاتون سے پوچھا کہ ہم آپ کی کیا مدد کرسکتے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ ہم اب اپنا ملک واپس جانا چاہتے ہیں اگر آپ سے ہوسکے تو ہماری واپسی کے انتظامات کردیں۔

میں نے اگلا پورا ہفتہ آفس سے چھٹی لیا۔ اس فیملی کی ٹکٹیں کروائی،ان کے منع کرنے کے باوجود بچوں کو شاپنگ کروائی اور پھر وہ دن آیا کہ ہم انہیں ائیرپورٹ پر چھوڑنے جا رہے تھے ہمارے دل بھی بہت اداس تھے، ائیرپورٹ جاتے ہوئے میری بیوی نے اس خاتون کو ایک لفافہ پکڑا دیا اس میں اچھی خاصی رقم تھی کہ وہاں جا کر سیٹل ہونے میں پریشانی نہ ہو، ہم انہیں الوداع کہہ کر گھر لوٹ آئے۔

چند مہینوں کے بعد مصر سے اس خاتون کا فون آیا حال احوال پوچھنے کے بعد میری بیوی کو ایک دیسی نسخہ لکھوایا کہ فلاں درخت کے پتے، فلاں بوٹی اور فلاں چیز ملا کر ایک معجون بنائیں اور صبح نہار اس کا استعمال شروع کریں۔ اب ہر دوسرے دن ان کا فون آتا تھا اور وہ نسخے سے متعلق پوچھتی تھی کہ استعمال کیا جا رہا ہے کہ نہیں، میری بیوی بھی پابندی سے نسخہ استعمال کر رہی تھی، شاید اس خاتون کا دل رکھنے کیلئے ایسا کرتی تھی ورنہ ہم دونوں اولاد سے مایوس ہوچکے تھے،اس نسخے کو استعمال کرتے ہوئے چار مہینے گزر گئے ہوں گے کہ ایک دن میں گھر آیا تو کچھ عجیب ماحول تھا میری بیوی تقریباً چیختے ہوئے مجھے خوش خبری دے رہی تھی کہ وہ حاملہ ہوچکی ہے، ہم فوری اسپتال پہنچے، ڈاکٹر بھی حیران تھے کہ یہ کیسے ہوگیا، ہم گھر آئے اور اس خاتون کو فون کرکے ان کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے آگے سے کہا کہ یہ پہلا بیٹا ہے لیکن آخری نہیں ایک اور بیٹا بھی ہوگا۔

وقت گزرتا گیا اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک کے بعد دوسرے بیٹے کی نعمت سے بھی نوازا، پھر ہم گھومنے کیلئے مصر چلے گئے، اس خاتون اور انکی فیملی نے ہمارا خوب استقبال کیا،باتوں باتوں کے دوران میری بیوی نے اس نسخے سے متعلق پوچھا کہ کیوں نہ ہم اس نسخے کو عام کریں تاکہ بے اولاد جوڑوں کو اولاد کی خوشی مل جائے، وہ خاتون مسکرائی اور کہنے لگی کہ آج میں آپ کو حقیقت بتاتی ہوں وہ نسخہ کچھ بھی نہیں تھا، میں نے آپ لوگوں کو نفسیاتی طور پر بچوں کے لیے تیار کرنے کی خاطر بتایا تھا ورنہ وہ ایسے ہی تھا۔ البتہ میں جب سے سعودی عرب سے لوٹی تھی۔ دعا کی قبولیت کی کوئی ایسی گھڑی نہیں تھی جس میں میں نے آپ لوگوں کیلئے رب تعالیٰ سے اولاد نہ مانگی ہو، میں ہمیشہ دعا میں آپ دونوں کا ذکر کرتی تھی۔ مجھے یقین ہوچکا تھا کہ اللہ تعالیٰ ضرور آپ لوگوں کو اولاد کی خوشی دے گا۔صدقہ،دوسروں کی مدد اور یقین کے ساتھ دعا یہ ایسے کام ہیں جن کے ثمرات بہت عظیم ہیں۔

بقلم فردوس جمال