سوال (2468)

اولیاء سے ڈائریکٹ بغیر واسطہ مدد مانگنا کیسا ہے ؟

جواب

مندرجہ ذیل یہ فتویٰ ملاحظہ ہو۔
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اولیاء اللہ رحمہم اللہ کے مزارات پر جاکر بعض لوگ انہیں ڈائر یکٹ مخاطب کر کے اپنی حاجات بیان کرتے ہیں اور ان سے مدد مانگتے ہیں۔ مثلاً یا ولی اللہ ! میں فلاں بیماری میں مبتلا ہوں، مجھے شفا عطا کر دیں، یا داتا صاحب ! مجھے بیٹا عطا کر دیں۔ کیا شریعت مطہرہ میں اس امر کی اجازت ہے؟
جی ہاں! شریعت مطہرہ کی روشنی میں اللہ عزوجل کے اولیاء کو ڈائریکٹ مخاطب کر کے اپنی حاجت بیان کرنا اور ان سے مدد مانگنا جائز ہے۔ اللہ عز و جل کے نیک بندوں سے مدد مانگنے کے جواز پر قرآن واحادیث شاہد ہیں۔ اللہ عزوجل قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:

“إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكُوةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ”

یعنی اے مسلمانو ! تمہارا مددگار نہیں مگر اللہ اور اس کار سول اور وہ ایمان والے جو نماز قائم رکھتے اور زکوۃ دیتے ہیں اور وہ رکوع کرنے والے ہیں۔[سورة المائدة آيت : 55

علامہ احمد بن محمد الصاوی علیہ الرحمۃ (متوفی 1241ھ) تفسیر صاوی میں آیت وَلا تَدْعُ مَعَ اللَّهِ الهَا آخَرَ کے تحت لکھتے ہیں:

“المراد بالدعاء العبادة وحينئذ فليس في الآية دليل على ما زعمه الخوارج من ان الطلب من الغير حيا او ميتا شرک فانه جهل مركب لان سوال الغير من حيث اجراء الله النفع او الضرر على يده قد يكون واجبا لانه من التمسك بالاسباب ولا ينكر الاسباب الا جحود او جهول “

ترجمہ: آیت میں پکارنے سے مراد عبادت کرنا ہے، لہذا اس آیت میں ان خارجیوں کی دلیل نہیں ہے جو کہتے ہیں کہ غیر خدا سے خواہ زندہ ہو یا فوت شدہ کچھ مانگنا شرک ہے، خارجیوں کی یہ بکو اس جهل مرکب ہے، کیونکہ غیر خدا سے مانگنا اس طرح کہ رب ان کے ذریعے سے نفع و نقصان دے، کبھی واجب بھی ہوتا ہے کہ یہ طلب اسباب ہے اور اسباب کا انکار نہ کرے گا مگر منکر یا جاہل ۔
[تفسیر صاوی، جلد 4 ، صفحه 1550 ، مطبوعه لاهور]
جواب :
یہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی ولایت، نبی کریم صلی اللہ علیہ کی ولایت اور اہل ایمان کی ولایت میں فرق ہے، یا کم سے کم یہ تو فرق ہے کہ خالق اور مخلوق کی ولایت میں فرق ہے، مخلوق کے لیے ولایت کا معنی مددگار کرنا صحیح نہیں ہے، بات یہ ہے کہ ہم اگر بالفرض یا محال اس بات پر اتفاق کر لیں کہ اللہ کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس کے بعد “المؤمنون” کہنے کی کیا حاجت رہ جاتی ہے، جب آپ نے سب سے بڑھ پیشوا کو اختیار دے دیا ہے، تو پھر اس کے بعد کچھ بھی نہیں ہونا چاہیے، آیت کا یہ غیر ضروری ترجمہ ہے، علامہ صاحب ویسے ہی بد عقیدہ انسان تھا، غیر اللہ کی پکار کو دین اسلام نے سختی سے روکا ہے ۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے ۔

“وَلَا تَدۡعُ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ مَا لَا يَنۡفَعُكَ وَ لَا يَضُرُّكَ‌ۚ فَاِنۡ فَعَلۡتَ فَاِنَّكَ اِذًا مِّنَ الظّٰلِمِيۡنَ”

«اور اللہ کو چھوڑ کر اس چیز کو مت پکار جو نہ تجھے نفع دے اور نہ تجھے نقصان پہنچائے، پھر اگر تو نے ایسا کیا تو یقینا تو اس وقت ظالموں سے ہوگا»
ارشادِ باری تعالیٰ ہے

۔”وَمَنۡ يَّدۡعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَۙ لَا بُرۡهَانَ لَه بِه فَاِنَّمَا حِسَابُهٗ عِنۡدَ رَبِّهٖ اِنَّه لَا يُفۡلِحُ الۡـكٰفِرُوۡنَ‏” [سورة المؤمنون : 17]

«اور جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو پکارے، جس کی کوئی دلیل اس کے پاس نہیں تو اس کا حساب صرف اس کے رب کے پاس ہے۔ بے شک حقیقت یہ ہے کہ کافر فلاح نہیں پائیں گے»
باقی رضا خانیوں نے ترجمہ دعا یدعو یا عبد یعبد سے کیا ہے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ