سوال (2752)

اگر اللّہ نے ايک عورت کو قرآن و حديث کا علم ديا ہے اور وہ بات سمجھانا بھی جانتی ہے وہ چاہتی ہے کہ وہ پوری دُنيا تک قرآن پہنچائے تو کيا شريعت اُس کو اجازت ديتی ہے؟ اگر ديتی ہے تو کيا وہ سوشل ميڈيا کے ذريعے اپنی آواز پہنچا سکتی ہے؟ (without showing herself )
کيونکہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ عورت کی آواز کا بھی پردہ ہے، اس ميں بھی فتنہ ہے، اگر اجازت نہيں ہے تو وہ دعوت الی اللّہ کا کام کيسے کرے گی؟ يا عورت کو اللّہ کے ليے دين کا کام کرنا ہی نہيں چاہيے؟

جواب

راجح قول کے مطابق عورت کی آواز کا پردہ نہیں ہے، معروف بات کی اس کو اجازت ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ۔

“يٰنِسَآءَ النَّبِىِّ لَسۡتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَيۡتُنَّ فَلَا تَخۡضَعۡنَ بِالۡقَوۡلِ فَيَـطۡمَعَ الَّذِىۡ فِىۡ قَلۡبِهٖ مَرَضٌ وَّقُلۡنَ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا” [سورة الاحزاب : 32]

«اے نبی کی بیویو! تم عورتوں میں سے کسی ایک جیسی نہیں ہو، اگر تقویٰ اختیار کرو تو بات کرنے میں نرمی نہ کرو کہ جس کے دل میں بیماری ہے طمع کر بیٹھے اور وہ بات کہو جو اچھی ہو»
بات کرنے کا انداز قرآن مجید نے اس کو بتادیا ہے تاکہ ایسا نہ ہو فتنہ ہو جائے، جس کی ایک واضح مثال ڈاکٹر فرحت ہاشمی حفظھا اللہ ہے، جو اپنے حصہ کا کام رہی ہیں، اگر اللہ تعالیٰ نے کسی کو ایسا موقع دے دیا ہے، اگرچہ خواتین کے دائرے بہت محدود ہوتے ہیں، اگر عالم سطح کا کام اللہ تعالیٰ اس سے لے رہا ہے، تو وہ کرسکتی ہے، باقی شروط و قیود ہیں، پردے کے ضوابط و اصول ان کو ملحوظ خاطر رکھے، اس کے علاؤہ آواز کے دائرے کار کو بھی ملحوظ خاطر رکھے، اگر آپ گہرائی میں جا کر دیکھیں گے کہ تو عورت کا بادشاہ وقت کو للکارنا اور دعوت دینا سب کچھ ثابت ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

دعوت إلى الله تعالى کے لیے رب العالمین نے صرف انبیاء ورسل علیھم السلام کا انتخاب فرمایا جو سب مرد تھے ان میں کوئی بھی عورت موجود نہیں تھی، جب نبوت ورسالت جیسا عظیم منصب عورت کے ذمہ نہیں لگایا گیا تو عصر حاضر میں بھی عورت اس کی مکلف نہیں ہے کہ وہ ابلاغ دین کے لیے سوشل میڈیا،ٹی وی وغیرہ کا استعمال کرے۔ ہاں اپنی دعوت صرف عورتوں تک محدود رکھ سکتی ہے جہاں تک اس کی استطاعت ہے ۔ اگر دعوت دین کے لیے خواتین کا نکلنا اور اسفار کرنا ضروری ہوتا تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم امت کی سب سے عظیم خواتین میں سے امہات المؤمنین،صحابیات رضی الله عنھن کے ذمہ یہ کام لگاتے جبکہ تاریخ اسلامی اس پر گواہ ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا ہے۔
رہا سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کے پاس صحابہ کرام وغیرہ کا مسائل کے لیے آنا اور راہنمائی لینا تو وہ اہل ایمان کی ماں تھیں اور رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے سب سے زیادہ قریب اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی گھریلو زندگی اور اس میں بیان کردہ مسائل کو سب سے زیادہ جاننے والی تھیں اس لئے صحابہ کرام ان کی طرف رجوع کرتے تھے ۔
تو خواتین صرف خواتین کی حد تک محفوظ جگہ پر رہ کر تعلیم و دعوت کا کام کر سکتی ہے۔ میڈیا پر آنا اس پر لازم نہیں ہے نہ وہ اس کام کی مکلف ہے۔ اس مسئلہ کو سمجھنے کے لیے باجماعت نماز کی صف بندی کے مسئلہ ،
امام کے بھول جانے پر لقمہ دینے کا مسئلہ، نماز کے لیے اذان دینے کا مسئلہ اور جماعت کے لیے امامت کا مسئلہ جیسے احکام و فرائض پر غور کر لیں کہ عورت کے لیے کتاب وسنت میں کیا احکام و راہنمائی ہے تو إن شاءالله آپ یہ مسئلہ سمجھ جائیں گے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

یقینا وہ مردوں کی طرح مکلف نہیں ہے، لیکن حسب استطاعت اپنے دائرے میں رہ کر کام کر سکتی ہے، خواہ سننے والے کوئی بھی ہوں، وہ پڑھ سکتی ہے، پڑھا بھی سکتی ہے، صرف یہ کہنا کہ صحابہ کرام سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آتے تھے، صرف امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کا مسئلہ نہیں ہے، اس سلسلے میں ہزاروں محدثات موجود ہیں، جن سے لوگوں نے دین سیکھا اور سمجھا بھی ہے، باقی یہ ہے کہ ان کا دائرہ محدود ہے۔ ان کے لیے شروط و قیود بھی ہیں۔
باقی یہ کہنا کہ وہ امھات المومنین میں سے ہیں، یقینا اس کا انکار کوئی نہیں کرسکتا ہے، لیکن کیا وہ ہر مسئلے میں ماں کا درجہ رکھتی تھیں، یا صرف نکاح کے مسئلے میں ہے، اگر ہر درجے میں ماں کا درجہ ہے، تو امھات المومنین پردہ کیوں کرتی تھیں، اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے۔
یہ اس قدر وسیع دائرہ بھی نہیں ہے، جتنا لوگ بنانا چاہ رہے ہیں، اس قدر تنگ بھی نہیں ہے کہ جس طرح ہم بنانا چاہ رہے ہیں، معاملہ بین بین ہے۔
ایک صاحب تقریر کر رہا تھا کہ خواتین جو تعلیم کے لیے نکلتی ہیں۔ یہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کبھی چار دیواری سے نہیں نکلی تھی، اس طرح اگر کھوج ہی کرنا ہے تو کیا ہمارے جو دروس کا سسٹم ہے، کیا ابوبکر و عمر یا دیگر صحابہ کا یہ معمول تھا۔ یاد رکھیں کہ خواتین اگر دین کا کام کریں تو اپنی محدود دائرے میں رہ کرکر سکتی ہیں۔
باقی سفر کا معاملہ الگ ہے، لیکن ہمارے علاقائی سطح پر بھی سفر کا اطلاق ہوتا ہے، یہ ایک اچھی تعبیر نہیں ہے، ہاں، اس سے انکار نہیں ہے کہ عورت کا محرم کے ساتھ جانا افضل و اولی ہے، لیکن گھر سے نکل کر بازار جا سکتی ہے، سامان لینے جا سکتی ہے، لیکن مسجد کا معاملہ ہو تو محرم یاد آجا تا ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

بارك الله فيكم و عافاكم
دیکھیے میرا جواب سوشل میڈیا تک ہے، جواب میں خواتین کو تعلیم دینا تو اس کی وضاحت موجود ہے، مردوں کو عورت کا تعلیم و دعوت دینا یہ محتاج دلیل ہے، محدثات کا مذکورہ سوال کے ساتھ موازنہ کر کے دیکھیں کہ کس حد تک درست اور صحیح ہے۔ محدثات کا دائرہ علمیہ کیا اور کہاں تک تھا وضاحت فرمائیں اور تاریخ اسلام میں داعیات اسلامیہ کے اوپر کیا کہتے ہیں، کیا انہوں نے مردوں کو دعوت و تبلیغ کی یا اس کی اجازت دی گئی کتاب و سنت اور سلف صالحین کے تعامل و فتوی سے، خواتین کی تعلیم و دعوت کا دائرہ صرف خواتین تک جائز ہے۔
والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

خواتین کی تعلیم و دعوت کا دائرہ صرف خواتین تک اس میں تو کوئی بھی اختلاف نہیں ہے، لیکن دور حاضر کے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے دائرہ بڑھتا ہوا چلا جا رہا ہے، اصل مسئلہ یہ پیدا ہو رہا ہے، اب ضمنا اس سے مرد بھی فائدہ حاصل کرتے ہیں، اس میں بھی کوئی قباحت نہیں ہے، علاقائی سطح پر اس کا آنا جانا ہے، اس کو سفر سے تعبیر کرکے روک دیا جاتا ہے، یہ بہرحال غلط ہے، سفر الگ ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

اسی دائرہ بڑھنے کی شرعا اجازت نہیں ہونی چاہیے ہے۔ اوپن اور عام دعوت و اصلاح کی ذمہ داری الله تعالى نے عورت پر ڈالی ہی نہیں ہے۔
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
دعوت کی ذمے داری عورت کی تو ہے، اگرچہ دائرہ محدود ہے، امر باالمعروف اور نھی عن المنکر کی ذمے داری عورت کی ہے، اگرچہ دائرہ محدود ہے، باقی یہ ٹھیک ہے کہ وہ دائرہ خواتین تک محدود ہے، لیکن ہمیشہ ضمنا اس سے مرد فائدہ اٹھاتے رہے ہیں، اٹھاتے رہیں گے، باقی جو دور جدید میں جدید پلیٹ فارم کا استعمال ہو رہا ہے، اب اس کی مردوں کے پاس بھی کوئی دلیل نہیں ہے، اصل بات یہ ہے کہ جس حصے کا کام ڈاکٹر فرحت ہاشمی حفظھا اللہ نے کرلیا ہے، وہ پچاس سالہ مدارس نہیں کر سکتے ہیں، یہ ایک حقیقت ہے، جو کہ تلخ ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

ہم بعض ایسی معلمات کو جانتے ہیں، جن کی نیت اچھی ہوتی ہے مگر ان کی فرینڈ لسٹ میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو انہیں بد اخلاقی پر مبنی میسج کرتے ہیں تو سوچیں اس کا سبب کیا چیز بنی ہے، آپ فیس بک، یوٹیوب پر دیکھیں کہ فضول لوگ اور آوارہ قسم کے لوگ کس طرح کے میسج کر جاتے ہیں، بعض کو تو میں نے ان کی فرینڈ لسٹ سے پرسنل میں میسج کر کے ریموو کروایا تھا۔

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

اب ڈاکٹر ذاکر نائیک حفظہ اللہ کے اوپر کتنی باتیں ہیں کہ منھج کی مخالفت ہو رہی ہے، تعامل امت الگ ہے، ٹھیک ہے ہر کسی کی رائے ہے، باقی یہ بتائیں کہ جس منھج کا وہ دعوے دار ہے، کیا اس نے اس کو سو فیصد اختیار کیا ہوا ہے، پہلے ہمیں درس دیا جاتا ہے کہ یہ مسئلہ یوں ہے، اب کہا گيا کہ جس کا فعل شرک ہے، وہ مشرک نہیں، جس کا فعل کفر ہے، وہ کافر نہیں۔ اب سیکھایا جاتا ہے کہ مرض سے نفرت کریں، مریض سے نہیں، بس ہمارے ہاں بگاڑ پیدا ہوگیا ہے ۔
باقی ہم بھی سوشل میڈیا میں جو انتشار ہے، اس کے حق میں نہیں ہیں، باقی ایک چیز چل پڑی ہے، اس سے اگر خواتین فائدہ اٹھاتی ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

شیخ صاحب ہمارا آپ کا موقف و مدعی ایک نہیں ہے، ہم نے جو سمجھا اور پڑھا ہے اس کے مطابق عورت صرف عورتوں تک اپنی تعلیم و تدریس اور دعوت کو محدود رکھے ۔
شیخ ڈاکٹر ذاکر نائیک والی بات کا نفس موضوع کے ساتھ کیا تعلق ہے، منہج و فھم کا اختلاف ہونا اور چیز ہے اور کسی خاتون کی پوسٹ اور لیکچر پر عشقیہ، اور آوارگی پر مبنی میسج کرنا اور بات ہے اور یہ کھلی بے حیائی ہے گو وہ خاتون بے قصور ہی ہیں، میں ایک علمی خاندان کی عالمہ، قاریہ کو جانتا ہوں جو اس وقت پی ایچ ڈی کر رہی ہیں، انہوں نے مجھ سے سوشل میڈیا پر قرآن اکیڈمی اور تلاوت قرآن کو نشر کرنے کے لیے مشورہ کیا اور پوچھا تو میں نے واضح طور پر اس کی مخالفت کی اور کہا کہ آپ صرف خواتین تک محدود رہیں اور وہی خاتون یونیورسٹی کے اندر پڑھتے ہوئے طلباء کا انہیں پریشان کرنا بھی بتاتی ہیں، بہرحال عجیب صورت حال ہے۔

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

اگر شیخ آوارگی کو بنیاد بنالیں تو پھر اسکول بھی نہیں جانا چاہیے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

جی میں نے اس کو بنیاد نہیں بنایا ہے، سکول اور سوشل میڈیا میں زمین و آسمان کا فرق ہے، رہی بات مردوں کے استفادے کی تو اگر عورت کی دعوت صرف عورتوں تک محدود تھی تو تب عورت پر معذور ہے، مردوں کو چاہیے کہ علماء کرام و مشایخ عظام کو سنیں اور ان سے دین سیکھیں اور عام طور پر یہی ہے ۔
عورت مردوں کی جماعت نہیں کروا سکتی آخر کیوں ؟ وہ باقاعدہ اوپن آواز میں اذان نہیں کہہ سکتی آخر کیوں ؟ وہ خطبہ جمعہ نہیں دے سکتی آخر کیوں ؟ وہ امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہوئے اسے بول کر لقمہ نہیں دے سکتی آخر کیوں ؟ وہ نکاح نہیں پڑھا سکتی آخر کیوں ؟ وہ عیدین کا خطبہ اور نماز نہیں پڑھا سکتی آخر کیوں ؟

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

شیخ میں نے عرض کردیا ہے کہ لكل وجهة
جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

شیخ محترم! حفظك الله ورعاك
یہ تمام عبادات ہیں ان کا قیاس تعلیم و تدریس پر درست نہیں ، عورت تعلیم و تدریس کر سکتی ہے، چاہے وہ جدید وسائل کا استعمال ہو یا پھر قدیم كا ، “مباح” کا حکم مرد و عورت دونوں کے لیے ہوتا ہے، جب سوشل میڈیا کا استعمال شرعا مباح ہے تو اس کو صرف مردوں کے لیے مخصوص کر لینا قواعد شریعت سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔
عرب و عجم کی کئی ایک جامعات ہیں جو آن لائن تعلیم دیتی ہیں ان میں معلمات بھی تدریس کرتی ہیں۔ میں بذات خود کئی ایک “دکاترة” سے کسب فیض حاصل کر چکا ہوں۔
شروط وہی ہیں کہ عورت اپنے حجاب کو لازم پکڑے، اور باقی شرعی آداب کو ملحوظ خاطر رکھے۔ اس میں یہ حکم معلمات وطالبات دونوں کے لیے یکساں ہے۔
والله تعالى أعلم.

فضیلۃ الباحث ابو دحیم محمد رضوان ناصر حفظہ اللہ

تبلیغ اصل عورت کی ذمہ داری میں شامل نہیں ہے، اسی لیے انبیاء بھی اللہ تعالی نے عورتوں میں مبعوث نہیں فرمائے اور جب انبیاء مرد ہیں تو ان کے اصل وارث بھی مرد ہی ہیں۔ مردوں کو چاہیے کہ وہ علوم حاصل کریں اور ان میں مہارت پیدا کریں۔
عورت صرف بوقت ضرورت اتنی ہی دعوت و تبلیغ کے میدان میں اپنی کوئی خدمات سرانجام دے سکتی ہیں جتنی کے بغیر چارہ نہ ہو۔ جیسے عورتوں کے مسائل کے لیے ہر علاقے میں کچھ عالمات موجود رہنی چاہیں تاکہ خواتین بلا جھجھک اپنے مسائل کا حل لے سکیں۔
پھر امر بالمعروف اور بلغوا عني ولو آية جیسی نصوص عام ہیں۔ البتہ عورت اپنے دائرہ کار میں رہ کر تبلیغ کرے گی۔ یہ دائرہ کار دو طرح سے ہے ۔
أولا :
وہ اپنی تبلیغ عورتوں تک محدود رکھے۔ اس کی استثناءات بوقت مجبوری ہو سکتی ہیں، مثلا؛ کسی عورت کے پاس ایسا علم ہے جو مردوں کے پاس نہیں اور اس کے ضیاع کا خدشہ ہے یا کسی علاقے میں مرد علماء موجود ہی نہیں تو وہ عورت اپنا دائرہ کار شرعی اصولوں کے مطابق مردوں تک بڑھا سکتی ہے۔
ثانیاً :
وہ عورتوں کو تبلیغ کرتے وقت بھی تبلیغی اسفار نہیں کرے گی، کیوں کہ یہ”وقرن في بيوتكن” ودیگر نصوص کے خلاف ہے۔ اپنے علاقے کی عورتوں تک محدود رہے۔ الا یہ کہ اتفاقاً سفر ہو جائے یا کوئی ضرورت پیش آ جائے جیسا کہ اوپر کی صورت میں مثال دی گئی ہے۔
فی زمانہ سوشل میڈیا چونکہ سفر سے مستغنی کر دیتا ہے ، لیکن عورتوں کا اس میں توسع اختیار کر لینا اور مردوں کے شانہ بشانہ چلنے کی کوشش کرنا، گھریلو ذمہ داریوں اور خاوند و اولاد کے حقوق پر اسے ترجیح دے دینا وغیرہ یہ واضح شرعی احکام کی مخالفت ہے۔ مرد اور عورت کے اس معاملے میں یہ بھی فرق ہے علماء کی تبلیغی ذمہ داریاں عموماً اُن کے بیوی بچوں کے حقوق کے آڑے نہیں آتیں، جبکہ عورت کو اس میدان میں نکلنے کے لیے سب سے پہلے خاوند و اولاد کے حقوق کی ہی قربانی دینا ہوتی ہے۔

فضیلۃ الباحث حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ

بارك الله فيكم وعافاكم
یہی میرا کہنا تھا اسی لیے میں نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کی مثال دی کہ ان سے مسائل پوچھنے کا ایک واضح سبب وہی ہے، جو آپ نے ذکر کیا یقینا جو معلومات ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کے پاس تھیں، وہ دیگر کے پاس نہیں تھیں یا بعض مشکل مسائل کا حل انہی کے پاس تھا کہ وہ ان میں ماہر و أعلم تھیں ، تو یہ جزئی صورت ہے، جس سے کسی کو اختلاف نہیں ہے
اور یہی معاملہ روایت حدیث، علم حدیث میں ہے محدثات وراویات کے باب میں اور یہ خاص علم تک ہے اور جزئ صورت ہے۔
باقی شیخ ابو دحیم صاحب آپ بنیادی طور پر میرا نکتہ نظر سمجھے ہی نہیں ہیں، خیر حافظ محمد طاہر صاحب نے مزید وضاحت کر دی ہے جو کافی ہے ہمارے موقف کی تائید میں

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

میں ایک ذاتی بات بتاتا ہوں کہ ایک طالب علم نے مجھے کلاس میں کہا کہ فلاں جو عورت ہے، وہ دعوت کا کام کرتی ہے، اس کی تقاریر سے لوگوں کی زندگیاں تبدیل ہوگئی ہیں، میں نے کہا کہ آپ مجھے اس سوال کا جواب دیں کہ جب آپ تقریر سنتے ہیں تو کیا آپ کے دل میں ایک خواہش پیدا ہوتی ہے کہ میں اس کو دیکھوں، انہوں نے کہا کہ استاد جی یہ بات رہنے دیں، میں نے کہا کہ مجھے میرے سوال کا جواب مل گیا ہے۔
تو لہذا کوئی بھی خاتون، کسی بھی عمر کی ہو، نقاب کی پابند ہو، لیکن جب وہ سوشل میڈیا پر آئے گی تو اس کے فوائد کم اور نقصانات زیادہ ہونگے ۔

فضیلۃ الشیخ عبدالرزاق زاہد حفظہ اللہ