سوال (2659)
کیا ہر مرتبہ مباشرت کے بعد غسل کے دوران عورت کے لیے بال کھول کر اچھی طرح دھونا ضروری ہے؟
جواب
غسل جنابت ميں سارے بدن كا دھونا واجب ہے، اور اس ميں بال بھى شامل ہيں، اس ليے بالوں پر پانى بہانا اور نيچے تک پہنچانا ضرورى ہے ، صرف بالوں پر مسح كرنا كافى نہيں، كيونكہ يہ دھونا شمار نہيں ہوتا، اور پھر واجب تو دھونا ہے نہ كہ مسح.
غسل جنابت ميں عورت كے ليے سر كے سارے بال كھولنا ضرورى نہيں ہے، ليكن اس كے ساتھ يہ ضرورى ہے كہ وہ اپنے سارے بدن پر اور بالوں كى جڑوں تک پانى پہنچائے.
نوٹ:
غسل حیض میں سر کھولنا ہوگا، سر نہ کھولنے کا تخفیفی حکم صرف غسل جنابت میں ہے، کیونکہ جنابت کثرت سے پیش آتی ہے، جبکہ غسل حیض مہینے میں ایک مرتبہ کرنا ہوتا ہے۔
شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
ہمارے ہاں بعض عورتيں اپنے بالوں كى ميڈياں بناتى ہيں، اور غسل جنابت ميں ميڈياں نہيں كھولتى، تو كيا ان كا غسل صحيح ہے؟
يہ علم ميں رہے كہ اس طرح پانى سارے بالوں كى جڑوں تك نہيں پہنچتا اس كے متعلق ہميں معلومات فراہم كريں.
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
“اگر عورت اپنى ميڈيوں پر پانى بہا لے تو اس كے ليے اتنا ہى كافى ہے؛ كيونكہ ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كرتے ہوئے كہا:
“ميرے سر كے بالوں كى چوٹياں بہت شديد ہيں كيا ميں غسل جنابت ميں بھى انہيں كھولا كروں؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: نہيں، بلكہ تيرے لیے يہى كافى ہے كہ تو اپنے سر پر تين چلو پانى بہا لے، اور پھر اپنے اوپر پانى بہا لو تو تم پاك ہو جاؤگى ”
[صحيح مسلم: 497]
اس صحيح حديث كى بنا پر جب عورت اپنے سر پر تين چلو پانى بہائے تو يہ كافى ہے اور ميڈياں كھولنےکی كوئى ضرورت نہيں.
[ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز: 10 / 182]
اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے كہ:
ليكن طہارت كبرى كے ليے ضرورى ہے كہ آپ تين بار پانى اپنے سر پر بہائيں، صرف مسح كرنا كافى نہيں؛ كيونكہ صحيح مسلم كى حديث ميں ہے كہ:
پھر شيخ رحمہ اللہ نے ام سلمہ رضى اللہ عنہا كى مندرجہ بالا حديث ذكر كی ہے.
[ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز: 10 / 161]
اور ابن قيم رحمہ اللہ تعالى ” تھذيب السنن ” ميں رقطمراز ہيں:
“ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا كى يہ حديث اس بات پر دلالت كرتى ہے كہ غسل جنابت ميں عورت كے ليے اپنے بال كھولنا ضرورى نہيں، اس پر اہل علم كا اتفاق ہے، مگر ابن عبد اللہ بن عمرو اور ابراہيم النخعى سے جو بيان كيا جاتا ہے كہ وہ اپنى ميڈياں كھولےگى، ليكن ان كى موافقت ميں كسى كا علم نہيں ” انتہى.
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
غسل ميں كم از كم واجب يہ ہے كہ عورت اپنے سارے بدن پر پانى بہائے حتى كہ بالوں كے نيچے بھى، اور افضل يہ ہے كہ اس طريقہ پر ہو جو ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ميں آيا ہے.
ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہ نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے حائضہ عورت كے غسل كا طريقہ دريافت كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
“تم ميں سے كوئى عورت پانى اور بيرى لے كر اچھى طرح طہارت كرے اور پھر اسے اپنے سر پر بہائے اور اچھى طرح ملے حتى كہ اس كے بالوں كى جڑوں تك پانى جائے، پھر اپنے اوپر پانى بہائے، پھر كستورى كپڑے ميں ركھ كر اس سے پاكى اختيار كرے.
اسماء رضى اللہ تعالى كہنے لگيں: اس سے كيسے پاكى اختيار كرے؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: سبحان اللہ! اس سے تم پاكى اختيار كرو!
تو عائشہ رضى اللہ تعالى كہنے لگيں: تم خون كے اثر والى جگہ( يعنى شرمگاہ ) پر ركھو”
[صحيح بخارى و صحيح مسلم]
اور اس كے ليے سر كے بالوں كى ميڈياں كھولنا واجب نہيں، ليكن اگر وہ اتنى سخت بنائى گئى ہوں كہ بالوں كى جڑوں تك پانى نہ پہنچنے كا خدشہ ہو تو پھر كھول لے، كيونكہ صحيح مسلم ميں ام سلمہ كى حديث ہے.
پھر شيخ رحمہ اللہ نے مندرجہ بالا حديث ذكر كی ہے.
[ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين: 11 / 218- 219]
فضیلۃ الباحث افضل ظہیر جمالی حفظہ اللہ