سوال (3149)

کیا عورت اپنا حق مہر معاف کر سکتی ہے، اگر وہ کہے کہ میں معاف کر دیتی ہوں، اس طرح عورت اپنا حق مہر گھر کے کسی فرد کو واپس کر سکتی ہے؟

جواب

ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔

“وَاِنۡ طَلَّقۡتُمُوۡهُنَّ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ تَمَسُّوۡهُنَّ وَقَدۡ فَرَضۡتُمۡ لَهُنَّ فَرِيۡضَةً فَنِصۡفُ مَا فَرَضۡتُمۡ اِلَّاۤ اَنۡ يَّعۡفُوۡنَ اَوۡ يَعۡفُوَا الَّذِىۡ بِيَدِهٖ عُقۡدَةُ النِّكَاحِ ‌ؕ وَاَنۡ تَعۡفُوۡٓا اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰى‌ؕ وَ لَا تَنۡسَوُا الۡفَضۡلَ بَيۡنَكُمۡ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِيۡرٌ” [سورة البقرة : 237]

«اور اگر تم انھیں اس سے پہلے طلاق دے دو کہ انھیں ہاتھ لگائو، اس حال میں کہ تم ان کے لیے کوئی مہر مقرر کر چکے ہو تو تم نے جو مہر مقرر کیا ہے اس کا نصف (لازم) ہے، مگر یہ کہ وہ معاف کر دیں، یا وہ شخص معاف کر دے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے اور یہ (بات) کہ تم معاف کر دو تقویٰ کے زیادہ قریب ہے اور آپس میں احسان کرنا نہ بھولو، بے شک اللہ اس کو جو تم کر رہے ہو، خوب دیکھنے والا ہے»
جی ہاں! اگر لڑکی خود رضامندی سے چھوڑ دے تو کوئی حرج نہیں ہے، اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، باقی عورت لینے کے بعد واپس بھی دے سکتی ہے، اگر لینے سے پہلے شروع میں ہی کہتی ہے کہ میں نہیں لے رہی ہوں تو بھی کوئی حرج نہیں ہے، باقی نہ ہونے کے برابر دے دیا جائے تب بھی کوئی حرج نہیں ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ