سوال (4342)

کیا عورت کاروبار کر سکتی ہے؟ یعنی کیا ہم کسی عورت کو اپنے آفس میں رکھ سکتے ہیں؟ جہاں کمپیوٹر اور فنانسنگ اور ڈیلنگ کے معاملات وہ سنبھالے۔ وضاحت فرما دیں.

جواب

بوقت ضرورت خواتین نوکری اور کاروبار کر سکتی ہیں، شریعت کی حدود کا لحاظ رکھا جائے، مرد و زن کے اختلاط سے بچنا چاہیے، غیر ضروری گفتگو نہیں کرنی چاہیے، شرط یہ ہے کہ جو ذمے داریاں دی جا رہی ہیں، وہ حلال کام کی ہوں تو ان شاءاللہ کوئی حرج والی بات نہیں ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

اس سوال کے دو حصے ہیں، پہلا حصہ یہ ہے کہ کیا کوئی عورت کاروبار کر سکتی ہے، اس پر تو کسی کا بھی اختلاف نہیں ہے، تقریبا تمام فقہاء کے فتویٰ موجود ہیں کہ عورت کاروبار کر سکتی ہے، عمومی طور پر جو شرائط بیان کی جاتی ہیں، وہ دیگر معاملات میں بھی ہیں تو یہاں بھی ہیں، اختلاط نہ ہو ،حجاب والا پہلو ہو، حرام و حلال کا فرق رکھا جائے، عورت یہاں بھی ان شرائط پر عمل کرے گی، باقی سوال کا جو دوسرا حصہ ہے کہ ہم اپنے ادارے، اسکول یا آفیس میں عورت کو نوکری کے لیے کال کر سکتے ہیں، یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے، اس پر بات کرنی چاہیے۔

فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ

شیخ جب بات واضح ہے کہ عورت حدود و شروط کو دیکھتے ہوئے نوکری کر سکتی ہے، تو پھر یہ کیا بات ہے کہ اس پر اصرار کیا جائے کہ کیا ہم اپنے پاس رکھ سکتے ہیں یا نہیں، بات یہ ہے کہ اس کو ماحول بنا کر دینا ہے، بس اس کو ماحول مطلوب ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

شیخ میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ کسی عورت کا نوکری کرنا کیسا ہے؟ کیونکہ کاروبار کرنا الگ بات ہے، نوکری کرنا الگ بات ہے، خواہ وہ میری بہن یا بیٹی ہو یا کسی اور کی بہن یا بیٹی ہو، بات اصل میں نوکری یا جاب پر ہے؟

فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ

شیخ بات صحیح ہے، بات یہ ہے کہ عورت کا نوکری کرنا بھی شروط و حدود کو ملحوظ رکھتے ہوتے صحیح ہے، کیونکہ اگر عورت کاروبار کر سکتی ہے تو نوکری بھی کر سکتی ہے، اس میں کیا عیب والی بات ہے، عورتیں لاکھوں اور کروڑوں کی صورت میں نوکریاں کر رہی ہیں، اصل بات شروط و قیود کی ہے، ان کی پابندی کرنی چاہیے، باقی یہ عورت کی نوکری ضرورت کے تحت ہو، ہم شوقیہ نوکری کرنے کی اجازت نہیں دیتے، لیکن ضرورت کے تحت ہو، میں نے یہ نہیں پڑھا ہے کہ اہل علم نے اس کا انکار کیا ہو، حتی کہ عدت کے دوران بھی اجازت دی ہے اگر کوئی صورت نہیں بنتی، تو دن کے وقت وہ نوکری کرلے، اگر وہ ضرورت مند ہے تو نوکری کر سکتی ہے، اس میں ابہام و اشکال نہیں ہونا چاہیے، ہر مسئلے کی طرح اس میں بھی آراء تو پائی جاتی ہیں۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

شیخ جی میں اس میں مراجعہ کروں گا۔

فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ