سوال (741)
اگر کوئی حافظہ خاتون مسجد میں عورتوں کو پڑھائے ، عورت کے مخصوص ایام میں وہ مسجد میں داخل نہیں ہو سکتی ہے ، اس کے نہ آنے سے پڑھائی کا نقصان ہوتا ہے تو کیا ایسی عورت کو بحالت مجبوری مسجد میں آنے کی رخصت دی جا سکتی ہے ؟
جواب
حائضہ عورت وضو کر کے مسجد میں جا سکتی ہے ۔ “راجح قول کے مطابق”
فضیلۃ الباحث واجد اقبال حفظہ اللہ
حالت حیض میں عورت کا مسجد میں ٹھہرنا جائز نہیں ہے ، حج کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنھا کو فرمایا تھا ۔
“افعلی ما یفعل الحاج غیر ان لا تطوفی بالبیت”
اسی طرح عید کے روز بھی حیض والی عورتوں کو مصلی سے الگ رہنے کا حکم ہے ، اسی معنی میں اور بھی بہت سی روایات ہیں
فضیلۃ الباحث داؤد اسماعیل حفظہ اللہ
شیخ “لا تطوفی بالبیت” سے مسجد میں ٹھہرنے کی ممانعت پر استدلال محل نظر ہے ،
اسی طرح “یعتزل الحیض المصلی” میں بھی مسجد کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
فضیلۃ الباحث واجد اقبال حفظہ اللہ
ضرورت کے تحت مسجد میں سے صرف مرور کی اجازت دی جا سکتی ہے ۔ وہاں قیام و جلوس کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے ، باقی کیا ہی بہتر تھا کہ اجازت کی دلیل بھی ذکر کردی جاتی ۔
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
الدليل الاول: البراءة الاصلية، وانه لم يثبت دليل في الكتاب ولا في السنة على منع الحائض والجنب من المكث في المسجد ، فالاصل فيه الجواز
والدليل الثاني: حديث عائشة قال النبي صلى الله عليه وسلم لعائشة (ناوليني الخمرة من المسجد) قالت اني حائض فقال (ان حيضتك ليست في يدك) خرجه مسلم
والدليل الثالث: ان الامة السوداء كان لها خباء في المسجد وكانت تبيت فيه وراه البخاري ولم يذكر منعها وسؤالها عن حالها والمرأة لا تخلو من حيض.
الدليل الرابع: عمل الصحابة رضوان الله عليهم أجمعين قد روي سعيد بن منصور في سننه بسند صحيح عطاء بن يسار قال: رأيت رجالا من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يجلسون في المسجد وهم مجنبون،إذا توضئوا وضوء الصلاة.
وحديث (اصْنَعِي مَا يَصْنَعُ الحَاجُّ، غَيْرَ أَنْ لَا تَطُوفِي بِالْبَيْتِ) وظاهرُ الحديث: أنَّ لها أنْ تدخلَ البيتَ بلا طوافٍ، فلم يمنَعْها مِن دخولِه، وخَصَّ المنعَ بالطوافِ.
والله اعلم بالصواب
فضیلۃ الباحث واجد اقبال حفظہ اللہ
البراءة الاصلية يرفع حتى بدليل ظني
وحديث عائشة (ان حيضتك ليست في يدك) دليل عليك
و رواية أمة سوداء فيها احتمالات اكثر من واحد
يحتمل ان تكون المرأة آيسة
و يحتمل ان يكون هذا قبل المنع
و يحتمل ان يكون واقعة عين و الأعيان لا تعم عند العلماء
و يحتمل انها كانت تخرج من المسجد ايام حيضها
و ايضا هذا تقرير و معلوم عند العلماء القول و الفعل مقدم على تقرير النبي عند التعارض
و يحتمل ان يكون هذا خاص بهذه المرأة لانه ليس عندها بيت و الضرورات تبيح المحظورات
واما بنسبة الدليل الرابع
اظن في صحته نظر وعلى فرض صحته نحن لا نتكلم عن الجنب
لا تطوفي بالبيت
اجاز النبي للحائض جميع أفعال الحاج غير الطواف لماذا؟
لان الطواف لا يكون الا في المسجد، ظاهر الحديث و معناه يدل على المنع
فضیلۃ الباحث داؤد اسماعیل حفظہ اللہ
میرے خیال میں امام البانی رحمہ اللہ نے درس و تدریس اور تعلیم و تربیت کے لحاظ سے وسعت پیدا کی ہے ، اس طرف سے دروازہ کھل گیا ہے ، عورتوں کا اس حالت میں مسجد میں بیٹھ کر درس و تدریس کرنا ، باقی فقھاء کی بحثیں سامنے آئی ہیں ، عمومی طور فتویٰ یہ دیا جاتا تھا کہ ایسی حالت میں عورتوں کو مسجد سے دور رہنا چاہیے ، وہ جو روایت ہے کہ “لا أحل المسجد لحائض و لا جنب” ظاہری سے بات ہے کی اختلاف ہے ، کسی نے قبول کیا ہے اس کے مطابق فتویٰ دیا ہے ، باقی بخاری وغیرہ کی روایتوں میں ہے کہ عیدگاہ سے الگ رہے ، اگر عارضی جائے نماز سے الگ رہنے کا حکم ہے تو جو مسجد مستقل نماز کی جگہ ہے وہاں اجازت کیسے ہوگی ، پاک و ہند میں یہی فتویٰ دیا جاتا ہے کہ حائضہ عورت مسجد نہیں جا سکتی ہے ۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ