سوال (338)

ایک خاتون ہیں جو عمرہ پر جانا چاہتی ہے ، اس کے ساتھ عمرہ پر جانے کے لیے کوئی محرم تیار نہیں تو کیا وہ اکیلی میں حج یا عمرہ کے لیے جا سکتی ہے ؟

جواب

عمرہ ایک نفلی عبادت ہے ، محرم کے بغیر سفر کرنے سے بچنا ہر مسلم خاتون کے اوپر فرض ہے ، راجح بات یہ ہے کہ جس خاتون کے ساتھ محرم نہیں ہے تو عمرہ تو کیا اس پر حج بھی فرض نہیں ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ عورت کا بغیر محرم کے حج یا عمرہ بلکہ کسی بھی سفر میں جانا درست نہیں ہے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ

سعودی حکومت تو اجازت دے چکی ہے ، البتہ شرعی اعتبار سے اکیلے سفر درست نہیں ہے ، سفر حج و عمرہ کے لیے محرم تیار کرے ، عبادت کے لیے جانا ہے تو طریقہ کار بھی سنت نبوی کا اپنائیں ۔

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ

’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نے عدی بن حاتم سے پوچھا: اے عدی ! کیا تم نے حیرہ دیکھا ہے؟ اگر تمہاری زندگی لمبی ہوئی تو تم ایک عورت کو دیکھو گے کہ حیرہ سے چلے گی، حتی کہ کعبہ کا طواف کرے گی، خدا کے سوا کسی سے نہ ڈرے گی، چنانچہ عدی فرماتے ہیں کہ میں نے وہ زمانہ اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ایک عورت حیرہ سے اکیلی اونٹ پر سوار ہوکر آئی، کعبہ کا طواف کیا اور اس کو الله کے سوا کسی کا ڈر نہیں تھا‘‘۔[ صحیح البخاری : 3595]
بعض لوگ اس حدیث سے دلیل لیتے ہیں کہ عورت اکیلی سفر کرسکتی ہے ، حالانکہ سیدنا عدی بن حاتم کی حدیث میں اکیلی عورت کے سفر کی اجازت بیان نہیں ہوئی ہے بلکہ محض حالت امن کا بیان ہے۔ اصل یہی ہے کہ خاتون کو اکیلے سفر کی اجازت نہیں ہے ۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ

سیدنا عدی بن حاتم کی حدیث میں تو پیشین گوئی بیان کی گئی ہے ، تو کیا پیشین گوئی سے دلیل پکڑنا جائز ہے؟ میرے علم میں تو یہی ہے کہ پیشین گوئی سے دلیل نہیں پکڑی جاسکتی ورنہ تو پھر کئی امور جائز ہوجائیں گے ۔

فضیلۃ الباحث عبد الخالق سیف حفظہ اللہ

بعض اہل علم کا سیدنا عدی بن حاتم والی حدیث کی وجہ سے یہ موقف ہےکہ عورت اکیلی سفر کرسکتی ہے… لیکن دوسری طرف دلائل بہت واضح اور مسئلہ منصوص ہے، جس سے قیاس اور تاویل کی گنجائش ختم ہو جاتی ہے۔
نمبر:1
ارشادِ نبوی ہے:

«‌لَا ‌تَحُجَّنَّ ‌امْرَأَةٌ إِلَّا وَمَعَهَا ذُو مَحْرَمٍ». [مصنف عبد الرزاق:9729، سنن الدارقطني :2440 ، قال ابن حجر: إسناده صحيح. [الدراية: 2/ 4]

’کوئی بھی عورت محرم کے بغیر ہرگز حج نہ کرے‘۔
یہ اس مسئلہ میں واضح نص ہے!!
چونکہ سفر، تھکاوٹ اور مشقت کا باعث ہوتا ہے، اور عورت اپنی جسمانی کمزوری کے باعث ایسے سہارے کی محتاج ہوتی ہے، جو اس کے برابر کھڑا ہو، اور اس کی مدد کرے، کبھی ایسا بھی ممکن ہے کہ عورت فوری ضرورت پڑنے پر درست فیصلہ نہ کر پائے، اور محرم کی عدم موجودگی میں غیر معمولی صورت حال پیدا ہو جائے ، جیسے کہ یہ چیز ٹریفک اور دیگر ذرائع سفر کے حادثات میں عام ہے۔
نمبر:2
بعض اہل علم جو گنجائش دیتے ہیں کہ اگر قابل اعتماد قافلہ اور ’رفقہ آمنہ‘ کی صورت ہو تو بغیر محرم سفر کیا جا سکتا ہے، اس حوالے سے گزارش ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں دو دفعہ حج ہوا ہے، ایک حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی امارت میں اور ایک خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع میں گئے ہیں اور یہ دونوں ہی ایسے قافلے تھے جو مامون و محفوظ اور رفقہ آمنہ تھے اس کے باوجود کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ کسی عورت نے بغیر محرم کے حج کیا ہو۔
بلکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلَّا وَمَعَهَا ذُو مَحْرَمٍ، وَلَا تُسَافِرِ الْمَرْأَةُ إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ»، فَقَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ امْرَأَتِي خَرَجَتْ حَاجَّةً، وَإِنِّي اكْتُتِبْتُ فِي غَزْوَةِ كَذَا وَكَذَا، قَالَ: «انْطَلِقْ فَحُجَّ مَعَ امْرَأَتِكَ» [صحیح بخاری: 1862، صحیح مسلم:1341]

’’کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ ہر گز تنہا نہ ہو مگر یہ کہ اس کے ساتھ کوئی محرم ہو اور کوئی عورت سفر نہ کرے مگر یہ کہ محرم کے ساتھ ہو۔‘‘ یہ بات سن کر ایک آدمی اٹھا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میری بیوی حج کے لیے نکلی ہے اور میرا نام فلاں فلاں غزوے میں لکھا جا چکا ہے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جاؤ اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو‘‘۔
لہذا اس سلسلے میں اگر کوئی گنجائش ہوتی تو اس صحابی کو جہاد سے نام کٹوا کر اپنی بیوی کے ساتھ حج پر جانے کا حکم نہ دیا جاتا! [ التعليقة الكبيرة لأبي يعلى:2/510]
اس سے یہی سمجھ آتی ہے کہ قافلہ جتنا بھی قابل اعتماد اور سفر کتنا بھی محفوظ ہو، محرم کے بغیر عورت کا سفر کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر حجۃ الوداع کے موقع پر رفقہ امنہ کیا ہو سکتا ہے۔
نمبر:3
اس وقت کے عملی حالات کو دیکھ کر بھی اس قسم کی اجازت، شر کا دروازہ کھولنے والی بات ہے، کیونکہ عملا دیکھنے میں آیا ہے کہ گروپس کی شکل میں لوگ جاتے ہیں اور اس میں غیر محرم مرد، عورتیں ایک دوسرے کے ساتھ فری ہو جاتی ہیں!!
بعض دفعہ زیادہ خطرناک قسم کی مثالیں سامنے آتی ہیں، جو لوگ وہاں رہتے ہیں، بالخصوص ہوٹلز وغیرہ اور رہائشی انتظامات کرنے والوں سے یہ چیزیں پوشیدہ نہیں ہوں گی.. یہی وجہ ہے کہ حکومت پاکستان کی طرف سے وزارت حج نے بھی اس کی کھلی چھٹی نہیں دی، کیونکہ انہیں ان معاملات کی حساسیت کا اندازہ ہے، لہذا انہوں نے حفاظتی اقدامات کی بات کی ہے، یہ الگ بات ہے کہ وہ حفاظتی اقدامات اور احتیاطی تدابیر بس رسمی اور کاغذی کاروائی ہے، عملا ان میں کوئی تحفظ اور احتیاط نہیں ہے۔ واللہ اعلم

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ