سوال (4807)

اگر کوئی عورت نسل کشی کرے یعنی آپریٹ کروا لے کہ اب مزید بچے نہ ہوں تو شریعت اس کے بارے میں کیا کہتی ہے اور کس صورت میں مستقل آپریشن کروا سکتے ہیں۔

جواب

اسلام میں کراہیت کے ساتھ عزل کی اجازت ہے، بشرطیکہ زن و شو دونوں متفق ہوں، یاد رہے کہ اس کے پیچھے یہ نظریہ نہ ہو کہ کہاں سے کھائے گا، کہاں سے پالیں گے، یہ تو کافروں کا عقیدہ تھا، اس لیے اللہ تعالٰی نے ان کو منع کیا تھا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

“وَلَا تَقۡتُلُوۡۤا اَوۡلَادَكُمۡ خَشۡيَةَ اِمۡلَاقٍ‌ؕ نَحۡنُ نَرۡزُقُهُمۡ وَاِيَّاكُمۡ‌ؕ اِنَّ قَتۡلَهُمۡ كَانَ خِطۡاً كَبِيۡرًا” [الإسراء: 31]

«اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم ہی انھیں رزق دیتے ہیں اور تمھیں بھی۔ بے شک ان کا قتل ہمیشہ سے بہت بڑا گناہ ہے»
باقی اپنی ضرورت کے تحت کہ چار دن اور اچھے گزر جائیں، جیسا کہ عزل والوں کے پیچھے نقظہ نظر تھا، جسم کی ساخت اور نشاط وغیرہ برقرار رہے، یا کچھ امتحانات سر پر ہوں تو زن و شو چاہتے ہیں کہ ہمیں کچھ وقفہ مل جائے، یا عورت کو کوئی تکلیف ہو، اس حوالے سے وقفہ لینا چاہتے ہیں، اسلام میں اس کی گنجائش موجود ہے، ضرورت کے تحت عزل کا راستہ اختیار کرنا جائز ہے، یہ وہ منصوبہ بندی ہے، جو جواز کی حیثیت رکھتی ہے، اب اس میں عزل کے جدید طریقے بھی آ سکتے ہیں، کنڈم وغیرہ کا استعمال، عارضی وقفے کو بڑھانے کے لیے میڈیسن کا استعمال، یہ جائز ہے، مزید ایک سال، دو یا تین سال کا بھی وقفہ لیا جا سکتا ہے، اس کی گنجائش موجود ہے، بالکل آخری صورت یہ ہے کہ ڈاکٹر نے کہا ہے کہ اس بار اگر حاملہ ہوئی ہے تو اس کی جان کو خطرہ ہے، تو پھر اس لحاظ سے نس بندی کروا سکتی ہے، اس لیے ڈاکٹرز اور دو عادل گواہوں کی گواہی ضروری ہے، یہ بالکل آخری صورت ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ