سوال (1261)

کیا شادی شدہ عورت کسی دوسرے مرد کو کسی بھی وجہ سے پسند کر کے اپنے شوہر سے خلع لے کر دوسرے مرد سے نکاح کر سکتی ہے؟ کیا اسلام ایسی اجازت عورت کو دیتا ہے؟ چار پانچ واقعات ایسے میڈیا پر آ چکے ہیں۔

جواب

فقد جاءت السنة الصحيحة بنهي المرأة أن تسأل زوجها الطلاق لغير مسوغ شرعي، روى أبو داود، وابن ماجه عن ثوبان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أيما امرأة سألت زوجها طلاقا في غير ما بأس، فحرام عليها رائحة الجنة. وعند الترمذي عن ثوبان أيضا: المختلعات هن المنافقات.

فضیلۃ الباحث حافظ طلحہ علوی حفظہ اللہ

فما معنى حديث عبدالله بن عباس هذا؟
أنَّ امرأةَ ثابتِ بنِ قيسٍ أتتِ النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ ، فقالَت : يا رسولَ اللَّهِ ! ثابتُ بنُ قيسٍ ، أما إنِّي ما أعيبُ عليهِ في خُلُقٍ ولا دينٍ ، ولَكِنِّي أكْرَهُ الكُفرَ في الإسلامِ ، فقالَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ : أتردِّينَ عليهِ حديقتَهُ ؟ قالَت : نعَم قالَ رسولُ اللَّهِ : اقبَلِ الحديقةَ وطلِّقها تَطليقةً
[صحيح النسائي : 3463 ، صحيح التخريج : أخرجه النسائي 3463 واللفظ له، وأخرجه البخاري 5273 باختلاف يسير]

فضیلۃ الباحث عمران صارم حفظہ اللہ

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما أَنَّ امْرَأَةَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسٍ أَتَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ مَا أَعْتِبُ عَلَيْهِ فِي خُلُقٍ وَلا دِينٍ ، وَلَكِنِّي أَكْرَهُ الْكُفْرَ فِي الْإِسْلَامِ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَتَرُدِّينَ عَلَيْهِ حَدِيقَتَهُ ؟ قَالَتْ : نَعَمْ . قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : اقْبَلْ الْحَدِيقَةَ وَطَلِّقْهَا تَطْلِيقَةً۔
قال ابن حجر رحمه الله :
” أي : لا أريد مفارقته لسوء خلقه ولا لنقصان دينه ، زاد في رواية : ( ولكني لا أطيقه )… بل وقع التصريح بسبب آخر وهو أنه كان دميم الخلقة ، ففي حديث عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده – عند ابن ماجه – : ( كانت حبيبة بنت سهل عند ثابت بن قيس وكان رجلا دميما ، فقالت : والله لولا مخافة الله إذا دخل علي لبصقت في وجهه ).
قوله : ( ولكني أكره الكفر في الإسلام ) أي : أكره إن أقمت عنده أن أقع فيما يقتضي الكفر ، وكأنها أشارت إلى أنها قد تحملها شدة كراهتها له على إظهار الكفر لينفسخ نكاحها منه ، وهي كانت تعرف أن ذلك حرام ، لكن خشيت أن تحملها شدة البغض على الوقوع فيه ، ويحتمل أن تريد بالكفر كفران العشير ، إذ هو تقصير المرأة في حق الزوج ” انتهى باختصار من ” [فتح الباري : 9/ 399]
والحديث يدل على أن كراهة المرأة لزوجها لدمامته ، وخوفها من تضييعها لحقه ، عذر يبيح لها طلب الفراق ، لكنها تخالعه حينئذ ، وترد عليه مهره .
قال الشيخ ابن عثيمين رحمه الله : ” لا يحل للمرأة أن تسأل زوجها الطلاق إلا لسبب شرعي؛ لأن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ( من سألت زوجها الطلاق من غير ما بأس فحرام عليها رائحة الجنة )، أما إذا كان هناك سبب شرعي بأن كرهته في دينه، أو كرهته في خلقه، أو لم تستطع أن تعيش معه وإن كان مستقيم الخلق والدين، فحينئذٍ لا حرج عليها أن تسأل الطلاق، ولكن في هذه الحال تخالعه مخالعة، بأن ترد عليه ما أعطاها ثم يفسخ نكاحها.

میں اسلام میں کفر کو پسند نہیں کرتی ، اس کا مطلب ہے کہ خاوند کے ساتھ رہ کر اس کے حقوق زوجیت کو نہیں ادا کر سکتی، ویسے بھی اس خلع کا مقصد کسی دوسرے مرد کی پسندیدگی نہیں تھا بلکہ اپنے خاوند کے حقوق میں حق تلفی کا ڈر تھا

فضیلۃ الباحث حافظ طلحہ علوی حفظہ اللہ

جی، ایسا ہی ہے، جو حدیث آپ نے ذکر کی اس میں تہدید و تحذیر تو ضرور ہے مگر کیا وہ حرمت پر دلالت کرتی ہے؟ اگر کرتی ہے لیکن اس کے باوجود کوئی عورت خلع لیتی ہے تو خلع واقع ہو گا یا نہیں؟
یہ بات اپنی جگہ درست کہ اس کا یہ عمل درست نہیں، مگر یہ بھی کہ جب عورت کے دل میں کسی اور کا خیال سمایا ہو گا تو وہ اپنے خاوند کے حقوق ٹھیک طرح سے ادا کر پائے گی؟ اور کیا اس طرح سے مزید مفاسد جنم نہیں لیں گے؟

فضیلۃ الباحث عمران صارم حفظہ اللہ

بعض دفعہ مزاج مختلف ہونے کی وجہ سے ہم آہنگی نہیں ہو پاتی حالانکہ دین و ظاہری شکل و صورت اچھی ہوتی ہے ، ایسی صورت میں صحابہ نے عرض کی کہ مجھ سے نافرمانی و ناشکری ہو جائے گی اور علی وجہ المطلوب میں خاوند کی اطاعت و خدمت اور فرمابرداری نہیں کر پاؤں گی ، امر واقع میں ایسا ممکن ہے ، نفسیات سے بنیادی شد بد رکھنے والا آدمی اسے سمجھتا ہے ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ خاتون کسی اور جگہ ڈورے ڈالتی پھرتی تھی اور خفیہ یاریاں لگائی ہوئی تھی۔۔۔

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

حدیث بیان کرنے کا مقصد یاریاں لگانا قطعاً نہیں تھا، بلکہ یہ کہ ہمارے معاشرے میں تو اسے بھی کوئی ٹھوس وجہ نہیں سمجھا جاتا۔ اصل سوال اور زیر بحث معاملہ اب بھی جوں کا توں باقی ہے۔

فضیلۃ الباحث عمران صارم حفظہ اللہ

میاں بیوی میں ذہنی مماثلت نہ ہونے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں ، جہاں تک پہلی وجہ آپ نے جو ذکر کی ہے کہ خاوند کے ہوتے ہوئے اگر کسی اور کا دل میں خیال لاتی تو اس صورت میں وہ حق زوجیت تو صحیح ادا نہیں کر پائے گی وغیرہ وغیرہ ، دیکھیں خاوند کے ہوتے ہوئے اگر کسی کے بارے دل میں ایسا خیال آتا تو یہ خیال شیطانی ہو گا اور عورت کو مکمل طور پر اپنے شوہر کی محبت اور اطاعت میں زندگی بسر کرنی چاہیے اور ایسے وسوسوں پر اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے ، اگر ہم اس بنیاد پر اسے خلع لینے کی اجازت دیتے ہیں کل جس سے نکاح کرے گی اس کے ہوتے ہوئے بحیثیت انسان اسے کوئی اور اچھا لگنے لگے تو پھر ہم کہیں گے اسے اجازت ہونی چاہیے چلیں پھر اجازت دے دیتے ہیں تو جس سے پھر نکاح ہو گا اس کے ہوتے ہوئے اس عورت کی پسندیدگی کسی اور سے جاگ اٹھے تو کیا وہ عورت اسی پسندیدگی کو جواز بنا کر ہر بار کسی اور سے نکاح کرتی رہے گی ؟؟
جہاں تک ذہنی مماثلت کا تعلق ہے تو اس بارے ماہرین نفسیات کا ماننا ہے کہ کوئی انسان کسی کی کاپی نہیں ہے لہذا میاں بیوی دو مختلف الذہن اور مختلف سوچ اور مختلف عادات و اطوار کے متحمل ہوتے ہیں۔۔
بس ہوتا کیا ہے کہ شرعی نکاح ہو جانے کے بعد دونوں ایک دوسرے کو ہر پہلو سے قبول کر لیتے ہیں ۔۔
مرد کچھ عورت کی کمیوں کو برداشت کرتا ہے اور عورت بعینہٖ مرد کی غلطیوں کو برداشت کرتی ہے اسی کو میوچل انڈرسٹینڈنگ کہا جاتا ہے ۔۔
باقی اگر ذہنی اختلاف شرعی حدود کو کراس کرنے لگے تو اس صورت حال میں دونوں کو اپنا حق استعمال کرنے کی شرعا اجازت ہے لیکن اسے عمومی حالات میں قیاس نہیں کیا جا سکتا ۔۔
واللہ اعلم

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ

ایسا قلیل ہے کہ کوئی عورت اصل وجہ ظاہر کرے یعنی اسے کسی اور سے علاقہ ہے ، اگر وہ ظاہر کرے تو آدمی اسے رکھنا پسند ہی نہیں کرے گا ، لیکن اگر وہ امر واقع کو چھپا کر اور کچھ ظاہر کرے تو خلع تو واقع ہو جائے گا

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ