سوال (1736)

آج سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز پر عورت کا دعوت دین کے لیے آنا درست ہے؟ پھر اکثر ان میں سے چہرے کا مکمل پردہ بھی نہیں کرتی ہیں ، پوڈ کاسٹ میں اکیلی عورت غیر محرم سے سامنے بٹھا کر کونسا دین کا کام ہو رہا ہے؟ لڑکیوں سے نعتیں اور تلاوتیں کروانا کیسا ہے؟ کیا عورت اس طرح سارے عام عوامی سطح پر تبلیغ کر سکتی ہے؟ خوبصورت مزین حجاب پہن کر تبلیغ ہوسکتی ہے؟

جواب

یہ تبلیغ دین کا کام ہے جو بظاھر بہت اچھا ہے۔ مگر اس کا فائدہ بہت کم اور نقصان زیادہ ہے۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

عورت پر بھی دعوت و تبلیغ کی ذمے داریاں ہیں ، لیکن اس کا دائرہ محدود ہے ، یہ سوشل میڈیا جہاں بہت بڑا محاذ ہے ، وہاں یہ ایک بہت بڑا فتنہ بھی ہے ، عورت جزوی طور پر دعوت و تبلیغ کا کام کرسکتی ہے ، تو اس کو جزوی ہی رکھا جائے سوشل میڈیا میں اس کو رواج نہ دیا جائے ، باقی اگر بڑا کام ہے ، جیسا کہ “الھدی” والوں کا کام ہے ، الحمد للّٰہ ان کے بہت بڑے سلسلے ہیں ، کبھی کبھار ان کی متوازن آواز کے ساتھ کوئی چیز آگئی ہے تو جزوی طور اس کی اجازت دی جا سکتی ہے ، باقی آج کل ایک فیشن بن چکا ہے ، ان عورتیں کی آوازیں بھی قرآن کے خلاف ہیں اور شرعی حجاب کا بھی اہتمام نہیں ہے یا پرکشش حجاب کا اہتمام کرتی ہے ، یہ شر ہے ، شر سے خیر کا کام نہیں ہوتا ہے ، اس کو بہت زیادہ لگام ڈالنے کی ضرورت ہے ۔ انکار نہیں ہے ، لیکن اقرار اتنا بھی نہ ہو کہ فتنہ بن جائے ، جیسا کہ آج یہ فتنہ بنتا جا رہا ہے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

عورت مردوں کے اختلاط سے جتنا بچے اتنا ہی بہتر ہے اور دعوت دین کے لیے وہ ایسے حلقوں کا انتخاب کرے جہاں صرف عورتیں ہوں ، البتہ کوئی ایسا مسئلہ جس میں کسی عورت کے پاس ہی کوئی حدیث ہو یا علم ہو اور وہ انتہائی پردے میں رہ کر وۃٰۃ ۃ ۃۃنۃنمۃنےت7 ہتہخحکسی مرد کے سوال کا جواب دے دے تو جیسا کہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے صحابہ مسائل پوچھتے تھے جائز ہے ، خب 0شلیکن شاید آج کے دور میں ایسا ممکن نہیں ہو گا کہ جہاں عورتوں سے اس طرح مسائل پوچھنے کی ضرورت ہو اس لیے سوشل میڈیا پہ جس طرح بن سنور کر یا بے حجاب تبلیغ ہو رہی ہے اس کی عورت کو نہ ضرورت ہے اور نہ ہی اجازت ہے۔

فضیلۃ العالم ڈاکٹر ثناء اللہ فاروقی حفظہ اللہ