سوال (1570)

عورت خاوند کے کہنے پہ کس حد تک بال کاٹ سکتی ہے ؟

جواب

اس میں پہلی بات یہ ہے کہ نہ کاٹنا اولیٰ ہے ، کیونکہ بال زینت ہے ۔
سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

“مَنْ كَانَ لَهُ شَعْرٌ، ‏‏‏‏‏‏فَلْيُكْرِمْهُ” [سنن ابي داؤد: 1463]

«جس کے پاس بال ہوں تو اسے چاہیئے کہ وہ انہیں اچھی طرح رکھے»
دوسری بات یہ ہے کہ جواز مل سکتا ہے لیکن چند شرطیں ملحوظ ہوں :
(1) : پہلی شرط یہ ہے کہ مرد سے مشابہت نہ ہو۔
(2) : دوسری شرط یہ ہے کہ اترانا مقصود نہ ہو۔
(3) : تیسری شرط یہ ہے کہ غیر مسلموں سے مشابہت نہ ہو ۔
(4) : چوتھی شرط یہ ہے کہ شوہر کی رضامندی اس میں شامل ہو ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

اماں جی عائشہ رضی اللہ عنھا سے ثابت ہے کہ وہ کانوں کی لو تک بال کرتی تھیں ، تاکہ وہ نبی علیہ السلام کو خوبصورت لگیں ، جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اسی طرح سے یہاں شاید کندھوں تک کرتیں۔ بہرحال عورت اور مرد کو ایک دوسرے کی مشابہت اختیار نہیں کرنی چاہیے ، باقی عورت اپنے بالوں کا ایسا ڈیزائن نہ بنائے کہ وہ مردوں جیسی لگنے لگے البتہ اپنے شوہر کو خوبصورت لگنے کے لیے بال کٹوا سکتی ہے ، چھوٹے رکھ سکتی ہے ، جیسے اس کے خاوند کو پسند ہوں۔

عن أبي سلمة بن عبد الرحمن قَالَ: وَكَانَ أَزْوَاجُ النَّبيِّ صلى الله عليه وسلم يَأْخُذْنَ مِنْ رُءُوسِهِنَّ حَتَّى تَكُونَ كَالْوَفْرَةِ. [أخرجه مسلم: 320]
وقال الإمام النووي: وَفِيهِ دَلِيل عَلَى جَوَاز تَخْفِيف الشُّعُور لِلنِّسَاءِ

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

امہات المومنین کا یہ عمل بعد از وفات النبی ﷺ تھا. “كما قاله جمع من العلماء” البتہ عورت کا شوہر کی مرضی سے بال کاٹ لینے کی ممانعت پر کوئی دلیل نہیں ہے ۔

فضیلۃ الباحث حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ