سوال (4322)

ہمارے ہاں ایک عورت کام کرتی ہے، اس کی بیٹی کا نکاح کسی لڑکے سے ہوا تھا، نکاح کیا تھا، بس فرضی کاروائی سمجھو، کیونکہ وہ کوئی کتابی نکاح نہیں تھا، بس منہ زبانی تھا، اب لڑکے نے دوسری شادی کر لی ہے اور پہلے والی لڑکی کو نہ طلاق دیتا ہے، نہ شادی کرتا ہے، اس کے بارے میں رہنمائی فرمائیں کہ آیا منہ زبانی نکاح کے لیے طلاق ضروری ہے یا پھر وہ لڑکی کہیں اور نکاح کر کے شادی کر سکتی ہے؟

جواب

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نکاح زبانی ہوتے تھے، وطن عزیز میں بھی نکاح ایوب دور میں آیا ہے، اگر نکاح کی شرطیں جیسا کہ ایجاب و قبول، حق مہر، دو گواہ اور لڑکی کا ولی یہ شرائط پوری کی گئی ہیں تو نکاح ہوچکا ہے، اب یہ مسئلہ رہا کہ اس نکاح کو کاغذات پر نہیں لایا گیا، اب لڑکا طلاق بھی نہیں دیتا ہے تو اب اس کا حل کیا ہے۔
اس کا حل یہ ہے کہ آٹھ دس بڑے بندے بیٹھا دیے جائیں، ان کے سامنے اس لڑکے کو بیٹھا کر پوچھنا چاہیے کہ آپ اس لڑکی کو بسانا چاہتے ہو یا نہیں، اگر بسانا چاہتا ہے تو اسی وقت نکاح خواہ کو بولا کر نکاح نامہ بنا کر رجسٹرڈ کردیا جائے، بعد میں اگر یہ لڑکا اس عورت کے ساتھ نہیں رہے گا تو یہ عورت اس نکاح نامہ کی بنیاد پر خلع، خرچے وغیرہ کا دعویٰ کر سکتی ہے، یہ معاملہ پنجائیتی پر حل کرنا چاہیے، اس وقت جو لوگ تھے، ان ہی کی مدد سے یہ معاملہ حل کیا جائے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ