سوال
میرا نام محمد راشد ہے 12 جنوری 2025 بروز اتوار شام کو میری بیوی نے جھگڑا شروع کیا جس پر میں نے سمجھانے کی کوشش کی مگر بات نہ مانی اور اس نے اپنے آپکو آگ لگانے کی کوشش کرتے ہوئے طلاق کی ڈیمانڈ شروع کر دی۔ میں نے اس خوف میں مبتلا ہو کر 3 دفعہ طلاق کا لفظ بول دیا جس کے دوران میری بیوی نے جلدی سے میرے منہ پر ہاتھ رکھا لیکن میں 3 دفعہ مکمل کر چکا تھا البتہ میری بیوی نے ایک مرتبہ سنا ہے۔اس وقت ہم کمرے میں اکیلے تھے لیکن اس شور کے بعد گھر کے دیگر افراد بھی موقع پر پہنچ گئے تھے۔
ہمیں قرآن و حدیث کی روشنی میں اس مسئلے کا حل بتادیں کیا یہ طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
اس سوال میں کچھ باتوں کی وضاحت کرنا ضروری ہے، جو کہ درج ذیل ہے:
- جب انسان کسی خاتون سے نکاح کرتا ہے، اسے تین طلاق دینے کا اختیار مل جاتا ہے۔ پہلی طلاق کے بعد فوراً نکاح ختم نہیں ہوتا، بلکہ اس کی تین حیض مدت ہوتی ہے اگر اس مدت کے اندر اندر رجوع کر لیں تو ان کا نکاح بحال رہے گا اور اگر مدت گزر جائے تو نئے نکاح کے ساتھ گھر کو آباد کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ طلاق اپنی جگہ کھڑی رہے گی، یعنی اب اسکے پاس صرف دو طلاقوں کا اختیار باقی رہ جائے گا۔ دوسری طلاق کا بھی یہی طریقہ کار ہے کہ وہ طلاق دینے کے بعد عدت کے اندر اندر رجوع کر سکتا ہے، عدت کی مدت گزر جانے کے بعد نئے نکاح کے ساتھ اپنے گھر کو آباد کر سکتا ہے، پھر دو طلاقوں کا اختیار ختم ہو جائے گا۔ اسکے بعد تیسری طلاق فیصلہ کن ہوتی ہے، تیسری طلاق دینے کے بعد رجوع ہو سکتا ہے نہ نیا نکاح ہو سکتا ہے۔
- عورت کا خود کو آگ لگانے کی دھمکی دے کر طلاق کا مطالبہ کرنا، یہ شرعا اکراہ اور جبر تصور نہیں ہو گا، لہذا اس سے طلاق کے شرعی حکم پر کوئی فرق نہیں پڑے گا اور یہ طلاق واقع ہو جائے گی۔
- کتاب وسنت کی رو سے ایک مجلس میں دی ہوئی بیک وقت تین طلاقیں دینے سے ایک رجعی طلاق ہوتی ہے بشرطیکہ طلاق دینے کا پہلا یا دوسرا موقع ہو ۔اسکے دلائل حسب ذیل ہیں:
1۔ ارشادِ باری تعالی ہے:
“الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ”. [البقرة: 229]
’ طلاق دو بار ہے پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے اس کو رخصت کر دیا جائے‘۔
اگر تینوں طلاقیں بیک وقت شمار کرلی جائیں، تو ’روک رکھنے‘ کا مفہوم ختم ہوجاتا ہے۔ اسی طرح فرمایا:
{يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ} [الطلاق: 1]
’ اے نبی! (اپنی امت سے کہو کہ) جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت (کے دنوں کے آغاز) میں انہیں طلاق دو اور عدت کا حساب رکھو ‘۔
اگر تینوں طلاقیں ایک ہی مرتبہ شمار کرلی جائیں، تو پھر خاوندوں کے لیے عدت شمار کرنے اور حساب رکھنے کا کوئی مطلب باقی نہیں رہتا!
2۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے عہد نبوت ،سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دو سالہ دور حکومت میں تین طلاقیں ، ایک طلاق کا حکم رکھتی تھیں ،لیکن کثرتِ طلاق کی وجہ سے سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے کہا کہ لوگوں نے اس معاملہ میں جلدی کی جس میں ان کے لیے نرمی اور آسانی تھی ،اگر میں اسے نافذ کردوں تو بہتر ہے ۔اس کے بعد انہوں نے اسے نافذ کر دیا (صحیح مسلم، الطلاق،1472) تاہم سیدنا عمررضی اللہ کا یہ اقدام تعزیری وانتظامی نوعیت کا تھا ، جیسا کہ اس بات کو کئی ایک حنفی اکابرین نے بھی تسلیم کیا ہے۔(ملاحظہ ہو: جامع الرموز کتاب الطلاق، 2/ 277، اور حاشیہ طحطاوی على الدر المختار)
3۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں سیدنا رکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں ۔لیکن اس کے بعد بہت افسردہ ہوئے رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تم نے اسے طلاق کس طرح دی تھی ؟عرض کیا:تین مرتبہ۔ آپﷺ نے دوبارہ پوچھا: ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دی تھیں ؟عرض کیا! ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: پھر یہ ایک ہی طلاق ہوئی ہے اگر تم چاہو تو رجوع کر سکتے ہو۔ راوی حدیث سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے بیان کے مطابق انہوں نے رجو ع کر کے اپنا گھر آباد کر لیا تھا۔( مسند احمد:ص 123/4 ، ت: احمد شاکر )
اس حدیث کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
“هذا الحدیث نص فی المسئلة لایقبل التأویل”. (فتح الباری : 362/ 9)
یہ حدیث مسئلہ طلاق ثلاثہ کے متعلق ایک فیصلہ کن دلیل کی حیثیت رکھتی ہے جس کی کوئی تاؤیل نہیں کی جاسکتی۔بعض علمائے احناف نے بھی دلائل کے پیش نظر ان احادیث کے مطابق فتوی دیا ہے۔ ان علما میں مولانا پیر کرم شاہ ،مولانا عبدالحلیم قاسمی، مولانا حسین علی واں بھچراں ،مولانا احمد الرحمٰن اسلام آباد اور پروفیسر محمد اکرم ورک سرِفہرست ہیں ۔ ان کے فتاویٰ کی تفصیل( ایک مجلس میں تین طلاق ) نامی کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے۔ بہرحال ان حقائق کی روشنی میں ایک باغیرت مسلمان کے لیے گنجائش ہے کہ اگر اس نے ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دی ہیں تو دورانِ عدت بلاتجدیدِ نکاح رجوع کر سکتا ہے ،اور اگر عدت گزر چکی ہے تو بھی تجدید ِنکاح سے اپنا گھر آباد کرسکتا ہے ۔قرآن و حدیث کا یہی فیصلہ ہے اس کے علاوہ ہمارے ہاں رائج الوقت عائلی قوانین اور دیگر اسلامی ممالک میں بھی یہی فتوی دیا جاتاہے۔
لہذا مذکورہ شخص نے جو ایک ہی مجلس میں تین دفعہ طلاق طلاق طلاق بولا تھا، انکی ایک طلاق ہو چکی ہے، یہ عدت کے اندر اندر رجوع کر کے گھر کو آباد کر سکتے، لیکن اگر عدت گزر گئی تو پھر نئے سرے سے نکاح کرنا لازمی ہو گا۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ