سوال

ایک بندہ ہے اس کے کسی عورت کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے، اس عورت کی پہلے شادی بھی ہوئی تھی، اس کے دو بچے بھی تھے، اس کا شوہر بھی تھا، اس وقت اس بندے کے اس کے ساتھ غلط تعلقات تھے، اس میں سے اس کو چار بچیاں ہوئیں، ابھی وہ عورت بھی فوت ہو گئی، اور اس کا شوہر بھی فوت ہو گیا ہے، اب ان کی سب بچیوں کی کفالت یہ بندہ کر رہا ہے، ابھی وہ بندہ کہہ رہا ہے کہ جو پہلے اس عورت کی بچی تھی، وہ اس کو بہت پریشان کر رہی ہے کہ میرے ساتھ شادی کرو،  اس شخص کا سوال ہے کہ کیا میں اس کے ساتھ شادی کر سکتا ہوں، برائے مہربانی قرآن و حدیث سے رہنمائی فرمائیں۔

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

اگر کوئی شخص کسی عورت سے ناجائز تعلقات میں ملوث رہا، اور وہ عورت اس دوران شادی شدہ تھی، اس کا شوہر بھی تھا، تو شرعی طور پر اس بدکاری اور زنا کا بہت بڑا گناہ اور ایک شرمناک فعل ہے، جس پر اللہ تعالیٰ سے سچی توبہ لازم ہے۔

جہاں تک شرعی مسئلے کا تعلق ہے تو احناف کے نزدیک عورت کیساتھ بدکاری کی وجہ سے حرمت مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے، ليكن صحیح اور درست بات یہ ہے کہ بدکاری کی بنیاد پر حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوتی، کیونکہ حرمت مصاہرت صحیح طریقے سے نکاح کی صورت میں ثابت ہوتی ہے۔

چنانچہ وہ عورت جس کے ساتھ بدکاری کا ارتکاب کیا گیا ہے، وہ شادی شدہ ہے اور اس کی بیٹی اس کے شوہر کے نطفے سے ہے، تو اس (زانی) کے لیے اس لڑکی سے نکاح کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔

اکثر اہل علم کے نزدیک مسلمہ فقہی اصول ہے:

“الحرام لا يحرّم الحلال”.

’’حرام عمل کسی حلال چیز کو حرام نہیں کرتا‘‘۔

لہٰذا اگر اس عورت کی بیٹی اسکے شوہر کے نطفے سے ہے، تو اس صورت میں اس لڑکی سے اس (زانی) کا نکاح شرعاً جائز ہے۔

بشرطیکہ یہ شخص صدقِ دل سے اپنی سابقہ بدکاری پر توبہ کرے، یہ شخص اپنے گناہ سے سچی توبہ کرے اور اس شادی کی بنیاد تقویٰ اور اصلاح پر ہو، نہ کہ سابقہ ناجائز تعلقات اور یارانے کو نکاح کی آڑ میں جاری رکھنے کا حیلہ اور بہانہ بنایا جائے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ