خطیب بھائی نے اپنا ایک پرانا واقعہ سنایا جس میں کچھ سڑیل قسم کی فیمنسٹ خواتین کا ذکر تھا جن کی شادی نہیں ہوئی تھی اور وہ دوسروں کو شادی کی طرف بڑھتے بھی برداشت نہیں کرتی تھیں۔ بلکہ باقاعدہ ان کے خلاف محاذ آرائی کرتیں اور بالآخر انہیں تنگ آ کر جاب چھوڑنے میں ہی عافیت محسوس ہوتی۔
ایسی خواتین کو “ٹاکسک” قرار دینے پر بہت سی خواتین انکی حمایت میں نکل آئیں کہ ایسی عورتیں ہمدردی کی حقدار ہوتی ہیں۔ انہیں دھتکار کر اور “ٹاکسک” جیسی گالی دے کر انہیں مزید نفسیاتی مریض بنا دیا جاتا ہے۔
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اپنی ہم جنسوں کی وکالت کیلئے نکلنے والی یہ خواتین اپنی ساسوں اور نندوں کو “ٹاکسک” قرار دیتے ہوئے یہ سب کچھ کیوں نہیں سوچتیں؟
اور دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ ایسی خواتین کے سامنے جب لڑکا لڑکی فری ہوں گے تو ان میں منفی جذبات تو ابھریں گے۔ یعنی بھوکے کے آگے کھانا رکھ دو پر اسے کھانے نہ دو تو وہ کیا کرے گا؟
اچھا دلچسپ ترین بات یہ ہے کہ یہی بات جب ہم کہتے ہیں کہ لڑکوں کے سامنے لڑکیوں کا بیہودہ لباس میں آنا بھوکے کو ترسانے کے مترادف ہے تو یہی خواتین فرماتی ہیں:
۔ غض بصر کریں نا
۔ اپنا کردار مضبوط کریں
۔ ایسی بھی کیا فرسٹریشن
وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔ بلا بلا بلا
اور بات یہ ہے کہ معاملہ اگر صرف ان خواتین کو برا لگنے کا ہوتا تو بھی بات مانی جا سکتی تھی کہ یہ فطری نفسیاتی ردعمل ہے۔ لیکن جب ایک حاسد عملی طور پر اس کو نقصان پہنچانے پر کمر بستہ ہو جائے، جس کے حسد میں وہ مبتلا ہے، تو محسود کو بھی یہ حق ہے کہ وہ اپنا دفاع اور مناسب جوابی کارروائی کرے۔ ہمیں ایسے ہی نہیں حاسدین کے شر سے صبح شام پناہ مانگنے والی سورۃ الفلق کی تلقین کی گئی۔ یہ واقعتاً “ٹاکسک” لوگ ہوتے ہیں، تو ہی اللہ نے ہمیں انکی “ٹاکسسٹی” سے بچ کر رہنے کی ہدایت کی ہے…
نعوذباللہ من شر حاسد اذا حسد

خطیب احمد