سوال

کیا 13 تیرہ ذوالحجہ کو زوال سے پہلے رمی کرنا جائز ہے؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

رمی جمار زوال سے پہلے کی جائے یا بعد میں اسکے وقت کے تعین میں شریعت کا کوئی واضح حکم تو نہیں ہے، البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے یہ ثابت ہے کہ آپ نے دس ذی الحجہ کو طلوع آفتاب کے بعد چاشت کے وقت جبکہ گيارہ، بارہ اور تیرہ کو زوال کے بعد رمی کی ہے۔

چنانچہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

“رَمَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجَمْرَةَ يَوْمَ النَّحْرِ ضُحًى، وَأَمَّا بَعْدُ فَإِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ”. [صحیح مسلم: 1299]

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے قربانی کے دن چاشت کے وقت جمرہ ( عقبہ ) کو کنکریاں ماریں اور اس کے بعد ( کے دنوں میں تمام جمروں کو ) اس وقت جب سورج ڈھل گیا‘‘۔

اس لیے تیرہ ذوالحج کو رمی جمار سنت تو زوال کے بعد ہی ہے، البتہ ہجوم کی صورت میں بوڑھوں، عورتوں، بیماروں یا کمزوروں کو پریشانی و مشکلات سے بچانے کے لیے بعض اہل علم نے زوال سے پہلے رمی کی اجازت دی ہے، کیونکہ منی کے کاموں میں تقدم وتأخر میں وسعت پائی جاتی ہے۔

جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے مسائل دریافت کرنے کی وجہ سے منیٰ میں ٹھہر گئے۔ تو ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ میں نے بےخبری میں ذبح کرنے سے پہلے سر منڈا لیا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ( اب ) ذبح کر لے اور کچھ حرج نہیں۔ پھر دوسرا آدمی آیا، اس نے کہا کہ میں نے بےخبری میں رمی کرنے سے پہلے قربانی کر لی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ( اب ) رمی کر لے۔ ( اور پہلے کر دینے سے ) کچھ حرج نہیں۔ ابن عمرو کہتے ہیں (اس دن) آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جس چیز کا بھی سوال ہوا، جو کسی نے آگے اور پیچھے کر لی تھی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہی فرمایا:

“افْعَلْ وَلَا حَرَجَ”. [صحیح البخاری: 83]

’’اب کر لے اور کچھ حرج نہیں‘‘۔

لہٰذا سنت اور افضل یہی ہے کہ 13 ذوالحجہ کو رمی زوال کے بعد کی جائے، البتہ عذر یا ہجوم کی صورت میں زوال سے پہلے بھی رمی کی گنجائش ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ