سوال (5577)

اکثر لوگ آیات کے سیاق و سباق سے ہٹ کر آیات کو مخلتف شرعی احکامات کے لیے استعمال کرتے ہیں اور کوئی اصول بناتے ہیں حلانکہ آیت میں کچھ اور بیان ہو رہا ہوتا ہے، کیا ایسا کرنا ٹھیک ہے؟ کیا صحابہ بھی ایسے ہی دین کو سمجھتے تھے؟

جواب

دیکھیے اگر آپ کے سوال سے مراد تفسیر بالرائے ہے، تو وہ رائے جو سلفِ صالحین کے فہم کے خلاف ہو، وہ مذموم ہے، ممنوع ہے، شریعت کے لحاظ سے محدود ہے، اور اس سے اجتناب لازم ہے۔
اور اگر اس سے مراد یہ ہے کہ پیش آمدہ مسائل کو دیکھتے ہوئے استنباط کرنا، جو کہ سلفِ صالحین کے خلاف بھی نہ ہو، تو پھر ٹھیک ہے، پھر تو گنجائش موجود ہے، اور یہ گنجائش قیامت تک رہے گی۔
مسائل پھر کیسے حل ہوں گے؟ اجتہادی مسائل ایسے ہی حل ہوں گے۔
اس کی مثال یوں سمجھیں کہ صدیقہ کائنات سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب متعہ کے بارے میں پوچھا گیا، تو انہوں نے کیا کہا؟
“بینی و بینکم کتاب الله ” — یعنی میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرنے والا قرآن ہے۔
تو انہوں نے سورۃ المعارج غالباً پیش کی، اور وہ آیت پڑھی:

“والذین هم لفروجهم حافظون”

اور اس میں ذکر ہے کہ صرف دو راستے ہیں بیوی یا لونڈی، اس کے بعد جو کچھ ہے وہ تجاوز ہے، یعنی “اعتداء”۔
تو انہوں نے یہاں سے مسئلہ اخذ کیا، حالانکہ اس آیت کا شانِ نزول حرمتِ متعہ نہیں ہے، لیکن انہوں نے اس آیت سے مسئلہ اخذ کیا۔
تو اگر ایسا کچھ ہو، تو پھر گنجائش موجود ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ