سوال

میری شادی 2005 میں ہوئی، اُس وقت میں کینیڈا میں اپنے چچا کے پاس رہتا تھا ۔ ایک دن میری بیوی اپنے والدین کو ملنے گئی ہوئی تھی۔ میں ملازمت اور گھر کے حوالے سے کافی پریشان تھا کہ اچانک میری بیوی کا فون آیا، کچھ دیر میں نےبات کی ،لیکن میں اس وقت پریشان تھا، تومیں نے کہا:میں سونے جارہا ہوں اب کال نہ کرنا۔ اس نے بار بار کال کی، لیکن میں کال کاٹتا رہا۔ پھر اس نے چچا کے گھر والے نمبر پر کال کر دی ،تو میں اس ڈر سے کہ گھر والے بیدار ہوجائیں گئے، تو میں نےکال اٹھا لی اور کہا کہ اگر اب کال کی تو میں طلاق دے دوں گا۔ اس نے پھر کال کر دی ،میں غصے میں آگیا اور کہا کہ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔ 15 دن بعد وہ واپس آئی اور ہم نے صلح کرلی ۔پھر ہم پاکستان آگئے یہاں بھی میرے پاس ملازمت نہیں تھی ،میں اپنے والدین کے ساتھ رہتا تھا۔ پھر مجھے ملازمت مل گئی، اور میری بیوی بھی ملازمت کرنا چاہتی تھی، مجھے پسند نہیں تھا، لیکن وہ بضد تھی، جس وجہ سے ہماری لڑائی رہتی تھی، پھر میں نے اجازت دے دی ۔ایک دن وہ کسی کام پربضدتھی، تواچانک میرا دماغ بند ہوگیا جس وجہ سےمیں نےطلاق دے دی، اس کے بعد ہم نے صلح کرلی ۔پھر میں نے2022 میں بزنس کیا، جس میں بہت نقصان ہوا،جس کی وجہ سے میں کافی پریشان تھا۔ایک دن بیوی سےکسی بات پرلڑائی ہو رہی تھی تومیں اتنے غصے میں آگیا کہ میری کیفیت جنونی ہوگئی، حتی کہ میں نے اسے دس بار کہا کہ میں تمہیں طلاق دیتاہوں ۔ میری بیوی نے یاد دلایا کہ میں ایامِ مخصوصہ میں ہوں۔ کچھ دن میرے پاس رہی، لیکن اس کا کہنا تھا تین طلاق ہوگئی ہیں ۔جس کی وجہ سےمیں نے اپنے گھر والوں کو بلایا کہ اس مسئلہ کا حل نکالیں۔ انہوں نے بیوی کے ماموں کو بھی بلا لیا، تواس کے ماموں نے کہا کہ آپ اسے تین طلاقیں دیں۔ اور میرےگھر والوں کا بھی دباؤ تھا ،تو میں نےتین طلاقیں دے دیں۔ پھر اس کے ماموں نے ایک تحریر لکھی کہ میں نے اسے تین طلاقیں دے دی ہیں۔ اور مجھے کہا کہ اس پر دستخط کرو ،میں نے یہ جانتے ہوئے دستخط کردیے کہ میں پہلے تین طلاقیں دے چکا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ میں اس کےساتھ رہنا چاہتا ہوں ۔برائے کرم قرآن وسنت کی روشنی میں میری رہنمائی فرمادیں۔

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

 اگرچہ حیض کی حالت میں طلاق دینا درست طریقہ نہیں، اسے طلاقِ بدعی کہا جاتا ہے، لیکن اگر کوئی طلاق دے دے، تو طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے جب اپنی بیوی کو حالتِ حیض میں طلاق دی تھی (صحیح البخاری:5251) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے باقاعدہ طلاق شمار کیا تھا۔(مسند طیالسی:68، سنن دارقطنی:3867)
 سائل کا یہ کہنا کہ میں نے بہت غصے یا جنونی حالت میں طلاق دی، تو اس حوالے سے گزارش ہے کہ غصہ کی دو حالتیں ہیں :
نمبر1.جس میں غصہ تو ہوتا ہے، لیکن ہوش و حواس قائم رہتے ہیں، ایسے غصے کی حالت میں طلاق ہوجاتی ہے۔ اور عموما طلاق دینے والے لوگ اسی قسم کی کیفیت کا شکار ہوتے ہیں۔ کیونکہ اگر غصہ نہ ہو، تو خوشی خوشی تو کوئی طلاق نہیں دیتا۔
نمبر2.وہ غصہ جو اتنا شدید ہو کہ جس میں حواس قائم نہ رہیں۔یعنی انسان کو یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔تو ایسا بندہ مجنون کے حکم میں ہے۔اور مجنون آدمی کی طلاق نہیں ہوتی ۔جیسا اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ہے:

“رُفِعَ الْقَلَمُ عن ثلاثة: عن النائم حتى يَسْتَيْقِظَ، وعن الصبي حتى يَحْتَلِمَ، وعن المجنون حتى يَعْقِلَ”. [ابوداؤد؛4402]

’تین آدمیوں سے قلم اٹھا لیا گیا ہے: بچے سے حتیٰ کہ بالغ ہو جائے ،اور سوئے ہوئے سے حتیٰ کہ جاگ جائے، اور مجنون و پاگل سے حتیٰ کہ صحت مند ہو جائے‘۔
اب یہ آپ نے غور کرنا ہے کہ طلاق دیتے وقت، آپ کے غصے کی کیفیت کیا تھی؟ اگر تو پہلی حالت تھی، تو طلاق ہوچکی ہے، اور اگر دوسری تھی، تو پھر اس حالت میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ اس میں بھی تیسری طلاق جو کہ آپ نے شدید غصے کی حالت میں دی تھی، اس کی آپ نے دوبارہ مجلس میں بیٹھ کر تصدیق بھی کردی تھی ، اگرچہ وہ کسی کے کہنے پر ہی کی ہے، لہذا اس میں ہوش و حواس قائم نہ رہنے کا عذر نہیں دیا جاسکتا۔
 مذكوره سوال سے واضح ہوتا ہے کہ آپ الگ الگ مجلس میں تین دفعہ طلاق دے چکے ہیں ۔ اس لیے ہماری سمجھ کے مطابق پہلی اور تیسری طلاق تو بلاشبہ ہوچکی ہے، جبکہ دوسری کے بارے میں اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اس میں آپ کے ہوش وحواش قائم نہ تھے، تو پھر آپ کے پاس رجوع کا آخری موقعہ ہے۔ ورنہ تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، جن کے بعد انسان کے پاس نکاح یا بلانکاح کسی صورت رجوع کا حق باقی نہیں رہتا۔ الا کہ عورت کسی اور سے نکاح کرے،اور پھر وہ خاوند فوت ہوجائے ،یا اپنی مرضی سے طلاق دے دے، تو پھر عدت گزار کر وہ پہلے خاوند سے نکاح کر سکتی ہے۔ جیسا کہ قرآنِ کریم میں ہے:

“فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَه مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَه”. [سورۃ البقرہ: 230]

’پھر اگر اس کو (تیسری بار) طلاق دے دے، تو اب اس کے لئے حلال نہیں ،جب تک وه عورت اس کے سوا دوسرے سے نکاح نہ کرے۔
یاد رہے اس ضمن میں بعض لوگ مروجہ حلالے کی تجویز دیتے ہیں، جو کہ بالکل حرام ہے۔
 جس طرح آپ نے بار بار طلاق دی ہے، یہ بہت غلط رویہ ہے ۔ کیونکہ اگر واقعتا انسان کسی کے ساتھ رہ نہ ہوسکتا ہو، اور سوائے طلاق کوئی حل نہ ہو، تو ایک دفعہ طلاق دینا کافی ہوتا ہے۔ بار بار طلاق اور بار بار رجوع، یہ شخصیت میں موجود عدمِ توازن کی علامت ہے۔ دنیا میں رہتے ہوئے مشکلات بھی آتی ہیں، ہر کام مرضی مطابق تو نہیں ہوتا، لہذا حالات سے تنگ آکر خود کو مزید مشکل میں پھنسا لینا، یہ کوئی سمجھداری والا کام نہیں ہے۔ صحیح اقدام مشکل حالات سے نکالنے میں مدد کرتا ہے ، غلط فیصلے سے تو انسان مزید بحران کا شکار ہوتا ہے، جیسا کہ آپ کی صورت حال ہے ۔ بہرصورت اللہ تعالی سے توبہ و استغفار کریں، گناہوں سے اعراض کریں، عبادات اور اذکار میں دل لگائیں، تاکہ اللہ تعالی آپ کے لیے کوئی بہتر راستے نکالے۔ ہم بھی آپ کے لیے دعا گو ہیں۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف سندھو حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ