سوال (2492)
مندرجہ ذیل حدیث کی تشریح درکار ہے؟
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں:
“لَقَدْ نَزَلَتْ آيَةُ الرَّجْمِ، وَرَضَاعَةُ الْكَبِيرِ عَشْرًا وَلَقَدْ كَانَ فِي صَحِيفَةٍ تَحْتَ سَرِيرِي، فَلَمَّا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَشَاغَلْنَا بِمَوْتِهِ دَخَلَ دَاجِنٌ فَأَكَلَهَا” [سنن ابن ماجه : 1944]
جواب
یاد رہے کہ حدیث اور واقعہ اپنی جگہ صحیح ہے، لیکن جو کچھ اس میں ہے، وہ منسوخ ہوچکا ہے، اب جو منسوخ ہوگیا ہے، اس کو بکری کھاگئی ہے، تب بھی کوئی بات نہیں ہے، کیونکہ اس میں کوئی ایسی بات نہیں تھی، جس پر ہمیں عمل کرنا تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب تک وحی کا سلسلہ جاری رہا ہے، اس وقت تک بعض معاملات میں ناسخ اور منسوخ کا سلسلہ جاری رہا ہے، اس میں رضاعت کبیر اور رجم کا مسئلہ بھی ہے۔ دوسری روایات سے یہ وضاحت مل جاتی ہے کہ یہ مسئلہ منسوخ ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
شیخ الطائفہ، طوسی شیعہ (٤٦٠ھ) نے اس روایت پر رد و قدح کیے بغیر لکھا ہے:
اِنَّ هٰذَا مِنْ بَابِ نَسْخِ التِّلَاوَةِ وَ الْحُكْمِ مَعًا.
اس (حدیث عائشہ رضی اللہ عنھا) کا تعلق تلاوت اور حکم دونوں کے منسوخ ہونے کے ساتھ ہے۔
[التبیان: 13/1]
پھر بکری کے کھانے نہ کھانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
فضیلۃ الباحث محمد محبوب اثری حفظہ اللہ
سائل:
اس میں رضاعت کبیر اور رجم والی آیات بکری کا کھا جانا کی تسلی بخش وضاحت فرما دیں؟
جواب:
قرآنی آیات کے ذریعے پہلے عشر رضاعت (دس رضعے) کا مسئلہ تھا جو کہ منسوخ ہوگیا ہے، اب دو سال کے اندر بچے کےپانچ مرتبہ دودھ پینے سے رضاعت ثابت ہوتی ہے، جو رجم کی آیات قرآن میں تھی وہ منسوخ ہوگئی ہیں،اور دوسرا اب حدیث کے ذریعے جب شادی شدہ بدکاری کا ارتکاب کرے تو اس کو رجم کیا جاتا ہے۔لہذا یہ آیات منسوخ ہوچکی تھيں اس لیے ان آیات کے اوراق کو بکری کے کھانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، دسری اور اہم بات کہ کسی بھی کتاب کے ایک نسخے کے ختم ہونے سے اس کتاب کے باقی تمام نسخوں کے ختم ہونے کا استدلال کرنا یہ کم عقلی، جہالت اور عناد کی علامت ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ