اے طالب علم!
آپ کا علم حاصل کرنا ایک مبارک عمل ہے، یقین سے اساتذہ کے سامنے دو زانوئے ہو کر بیٹھنا بڑی سعادت ہے، اس کی قیمت دنیا کی کسی چیز سے نہیں، کیونکہ میں نے علم شرعی کے متبادل کوئی چیز دیکھی ہی نہیں، آپ تو بڑے خوشنصیب ہو، کیونکہ آپ کے لیے چرند پرند، حجر شجر یہاں تک مچھلیاں بھی دعائیں کرتی ہیں، آپ کا کیا کہنا آپ تو جنت کے راستے پہ چل رہے ہیں، آپ جن چٹائیوں پر بیٹھ کر جہاں مجلس سجاتے ہیں، دیکھنے میں تو وہ مجلس دنیا کی رنگینیوں سے خالی ہوتی ہے، لیکن اس مجلس کو ایک معصوم عن الخطا مخلوق گھیر لیتی ہے، اس مجلس میں آسمان سے بارش کی طرح رحمت برستی ہے، وہاں سکینت نازل ہوتی ہے، اس سے بڑھ کر احباب مجلس کا تذکرہ رحمٰن فرشتوں کے ہاں کرتا ہے، خیر آپ کے فضائل و مناقب میں شمار نہیں کرسکتا۔
لیکن یاد رہے کہ یہ علم کی جستجو تاحیات رہے، اپنے آپ کو تاحیات طالب علم ہی رکھنا ہے، بڑائی سے پرہیز کریں، اس بڑے پن اور بڑائی نے کئی طلباء کو کھالیا ہے۔ عاجزی و انکساری کو شعار بنائیں، اپنے اساتذہ کی تعظیم و تکریم کریں، بڑوں کی مجلس میں پروقار ہو کر بیٹھیں، ایسے بیٹھیں جیسے کوئی علم کا پیاسا ہو، یہ یاد رہے کہ بڑوں کی مجلس میں رائے دینے سے گریز کریں، اجتہادی مسائل میں بڑے علماء پر طعن مت کریں۔
علماء حق کو سننے کی عادت ڈالیں، کیونکہ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے، ہر کس و ناکس منبر کا مالک بنا بیٹھا ہے، یہ دور وہ ہے، جس میں چند کیمرے لے کر ہر کوئی سوشل میڈیا میں آ کر دین میں رائے زنی کرتا ہے۔
یہ یاد رکھیں کہ علم صرف معتبر علماء سے ہی لینا ہے، یعنی ان علماء سے جو واقعتاً کسی معتبر عالم کے پاس پڑھے ہیں یا جن کی گواہی اہل علم نے دی ہے۔
یہ بات میں اس لیے کر رہا ہوں کہ اپنے آپ کو گمراہ کن لوگوں سے بچانا ہے، اس سوشل میڈیا نے گمراہ مولویوں کو بڑا پروٹوکول دیا ہے، یہاں میں نے ان کو بھی بڑا مفکر دیکھا ہے، جن کی تقاریر، کتب اور لٹریکچروں نے صحابہ کرام سے نفرت سیکھائی ہے، یہاں وہ بھی مجدد ہیں، جنہوں نے حدیث کو رگڑا ہے، یہاں قرآن میں رائے دینے والا مفسر و مدبر کہلاتا ہے، یہاں فالوورز کے بھوکے بیٹھے ہیں، یہاں منھج کی بات کرنے سے لوگ بڑبڑاتے ہیں، یہاں اسلاف کے عقیدے اور منھج پر بات کرنے سے لوگوں کے چہرے تبدیل ہوجاتے ہیں۔
اس سے ہرگز یہ نہ سمجھیں کہ میں سوشل میڈیا کو استمعال کرنے سے روک رہا ہوں، سوشل میڈیا ایک وسیع پلیٹ فارم ہے، لیکن یہاں انتہائی احتیاط سے چلنا ہے، ہر کسی کی تقریر سے مرغوب نہیں ہونا ہے، ہر انداز و لہجے کو نہیں لینا ہے، بلکہ یہاں بھی اہل حق اور علماء حق موجود ہیں، ان کو ہی تھامنا ہے۔
یہاں لوگوں کے لباس سے مرغوب نہیں ہونا ہے، پیغمبر کا ہی لباس ایک طالب علم کا لباس ہے، ایک طالب علم شلوار قمیص، جبہ، ٹوپی اور پگڑی پہنتے ہوئے ہی اچھا لگتا ہے۔ یہ کبھی مت سمجھیں کہ میرا لباس دین کی تبلیغ میں آڑ ہے، اس ہی لباس کے ساتھ آج تک اہل حق تبلیغ کرتے رہے ہیں۔ دین لوگوں کو سناتے رہے ہیں۔
باقی اپنے اندر مطالعہ کا جذبہ پیدا کرنا ہے، کتب کو لازم پکڑیں، جہاں مشکل کا سامنا کرنا پڑے، وہاں اپنے اساتذہ سے رجوع کریں۔
🖋️: افضل ظہیر جمالی۔